یاماہا موٹر کا پاکستان میں موٹر سائیکل اسمبلی آپریشنز بند کرنے کا اعلان
پاکستان کے منظم آٹو سیکٹر کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے کہ یاماہا موٹر پاکستان لمیٹڈ (وائی ایم پی ایل) نے موٹر سائیکل اسمبلی آپریشنز بند کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ فیصلہ کمپنی کی کاروباری حکمتِ عملی میں تبدیلی کے تحت کیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمپنی کی ویب سائٹ پر جاری ایک خط اور مجاز ڈیلرز کو بھیجے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ یاماہا اپنے مجاز نیٹ ورک کے ذریعے اسپیئر پارٹس کی فراہمی جاری رکھے گی، اور ڈیلرز کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مناسب اسٹاک یقینی بنایا جائے گا، کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ وارنٹی اسکیم کے تحت وارنٹی سروسز اور کسٹمر سپورٹ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
وائی ایم پی ایل 4 ماڈلز تیار کر رہی تھی، جن کی قیمتیں 4 لاکھ 29 ہزار 500 روپے سے 4 لاکھ 93 ہزار 500 روپے تک تھیں، یاماہا وائی بی آر 125، جو ابتدائی طور پر ایک لاکھ 29 ہزار 400 روپے میں لانچ کی گئی تھی، روپے کی قدر میں کمی اور بڑھتی پیداواری لاگت کی وجہ سے 4 لاکھ 71 ہزار 500 روپے تک پہنچ گئی تھی۔
مالی سال 2016 میں دو پہیے والی سواری کی اسمبلنگ شروع ہوئی اور کمپنی نے بالترتیب 20 ہزار 100 یونٹ تیار کیے اور 16 ہزار 109 یونٹس فروخت کیے۔
کمپنی کی پیداوار اور فروخت مالی سال 2019 میں عروج پر تھی، جب یاماہا نے 24 ہزار 811 یونٹ تیار کیے اور 23 ہزار 610 فروخت کیے، جو پاکستان میں اس کے 9 سالہ سفر کے دوران سب سے زیادہ فروخت تھی، تاہم، پیداوار اور فروخت میں کمی آنا شروع ہوئی اور مالی سال 2025 تک یاماہا کی پیداوار اور فروخت ریکارڈ کم سطح پر آگئی، صرف 4 ہزار 300 یونٹ تیار ہوئے اور 5 ہزار 709 فروخت ہوئے۔
اگرچہ مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں کچھ بہتری آئی، جب جولائی میں 500 یونٹ تیار ہوئے اور 586 فروخت ہوئے (جبکہ جولائی 2024 میں یہ تعداد بالترتیب صرف 100 اور 302 تھی)، لیکن یاماہا کو ہونڈا، سوزوکی اور چینی اسمبلرز جیسے بڑے حریفوں سے سخت مقابلے کا سامنا رہا۔
اکبر روڈ کے مجاز یاماہا ڈیلر محمد صابر شیخ نے اس سست روی کی وجہ گرتی ہوئی صارفین کی آمدنی اور کم قیمت بائیکس (عام طور پر ایک لاکھ تا ڈیڑھ لاکھ روپے) کی مانگ میں اضافے کو قرار دیا، یاماہا کی توجہ نسبتاً مہنگے ماڈلز پر مرکوز ہونے کی وجہ سے یہ عوامی مارکیٹ کے لیے زیادہ پرکشش نہیں رہی۔
صابر شیخ نے کہا کہ ایک منظم جاپانی اسمبلی پلانٹ کا بند ہونا ملک بھر کے وینڈرز اور ڈیلرز کے لیے تشویش ناک خبر ہے، بہت سے چینی بائیک اسمبلرز، ہونڈا کی مقبول ’سی ڈی آئی 70 سی سی‘ بائیک کے معیار اور پائیداری کے مقابلے میں ناکام ہو کر پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔
صابر شیخ کے مطابق ’مستقبل الیکٹرک ہے اور پیٹرول سے الیکٹرک بائیکس پر منتقلی میں 2 سے 3 سال لگ سکتے ہیں، انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ پیٹرول بائیکس مارکیٹ کی لیڈر اٹلس ہونڈا بھی الیکٹرک گاڑیوں میں قدم رکھ چکی ہے۔
ایک وینڈر نے بتایا کہ یاماہا کی مقامی پرزہ جات کی شرح کم تھی، جس کی وجہ سے قیمتیں زیادہ رہیں، کیونکہ کمپنی درآمدی پرزہ جات پر انحصار کر رہی تھی۔
مزید برآں، بڑی بائیکس کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے جو کئی مسافروں کو بٹھا سکیں، جب کہ یاماہا کے ماڈلز کو مقامی صارفین کے لیے کم عملی سمجھا جاتا تھا۔
ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کی موٹر سائیکل پیداوار مالی سال 2025 میں بڑھ کر 16 لاکھ 92 ہزار یونٹس ہو گئی، جو مالی سال 2024 کے 12 لاکھ 34 ہزار یونٹس کے مقابلے میں زیادہ ہے، جو اس شعبے میں بڑھتی ہوئی طلب کو ظاہر کرتا ہے۔













لائیو ٹی وی