2025ء کا سیلاب: پانی نہیں، نااہلی اور کرپشن نے پاکستان کو ڈبو دیا
پاکستان ایک بار پھر ڈوبا ہے اور اس مرتبہ نقصان پہلے سے زیادہ تباہ کن ہے۔ ایسا حیرت سے نہیں بلکہ دھوکا دہی سے ہوا ہے۔ 2025 کے سیلاب نے پنجاب کو تباہ کر دیا ہے، گھروں، فصلوں اور زندگیوں کو بہا لے گیا ہے۔ لاکھوں بے گھر ہیں۔ اربوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ کہہ سکتےہیں کہ یہ محض سیلاب نہیں، نااہلی کے نتیجے میں عوام کا قتل عام تھا۔
قدرت نے اپنا اثر یقیناً دکھایا ہے، مگر اصل تباہی دریاؤں میں طغیانی کی وجہ سے نہیں، بلکہ دفاتر میں افسران کی غفلت اور نالائقی کا نتیجہ ہے۔ فیڈرل فلڈ کمیشن اور محکمہ آبپاشی پنجاب جن پر ہمارا دفاع کرنے کی ذمہ داری تھی، انہوں نے ہی ہمارے خاتمے کا منصوبہ بنایا۔ ان کے گرتے ہوئے پشتے اور نظر انداز کیےگئے دفاع نے قدرتی سیلاب کو انسانوں کے قتل عام میں بدل دیا۔ یہ بارش کا المیہ نہیں، نااہلی اور کرپشن کا مہلک امتزاج ہے۔
انتباہات کبھی پوشیدہ نہیں تھے۔ 2010ء کے سیلاب کے بعد، اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے احسن طریقے سے رپورٹ [A rude awakening] مرتب کی جس میں مجرمان کے نام بتائے گئے۔ اس نے نظامی غفلت، ناقص دیکھ بھال، اور افسر شاہی کی بے حسی سے خبردار کیا۔ پھر بھی کسی نے استعفیٰ نہیں دیا۔ کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ کوئی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ اور یوں، 15سال بعد، تاریخ اس سے بھی بڑے ظلم کے ساتھ لوٹی۔ کنارے ریت کے قلعوں کی طرح گر گئے، بیراجوں نے راستہ دیا، اور پورے گاؤں لہروں میں غائب ہو گئے۔
سیلاب کے تخفیف کے ڈھانچے کو لائف لائن سمجھا جاتا ہے۔ لیویز، ڈیم، فلڈ وال، ڈائیورژن چینلز، یہ آسائشیں نہیں ہیں بلکہ یہ محافظ ہیں۔ ان کا مشن آسان ہے کہ پانی روکیں، جانیں بچائیں، گھروں کی حفاظت کریں۔ تہذیبوں نے اسے صدیوں سے جانا ہے۔ قدیم میسوپوٹیمیا کے لوگوں نے مٹی کی پٹیاں بنائی تھیں جبکہ وادی سندھ کی انجینئرڈ نہریں۔ لیکن آج کے پاکستان میں ان سرپرستوں کو موت کے جال میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس سال جب ندیاں بلند ہوئیں تو وہ ریت کی طرح بکھر گئے۔

لیکن یہ کیوں ہوا؟ کیونکہ یہ پشتے کبھی قائم رہنے کے لیے بنائے ہی نہیں گئے تھے۔ بین الاقوامی معیارات ٹھوس کوروں کے ساتھ ساتھ یہ رتیلی مٹی کی مٹی کے پشتے، سیپج کنٹرول، ڈھلوان سے تحفظ اور مسلسل نگرانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمارے مٹی کے یہ ڈھیر سستے مواد، کمزور کور، صفر نکاسی اور مجرمانہ غفلت کے ساتھ بنایا گئے تھے۔ کٹاؤ انہیں سال بہ سال کھا گیا۔ سیپج نے انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ دباؤ میں ڈھلوانیں گر گئیں۔ دیکھ بھال ایک سراب تھا جن کے نام پر بجٹ لوٹ لیا گیا۔ 2025ء کے سیلاب نے کسی کو بھی حیران نہیں کیا کیونکہ یہ ناکامی حادثاتی نہیں تھی، یہ ناگزیر تھی۔
یہ ناکامی اس دہائی سے پیدا نہیں ہوئی ہے۔ اس کی جڑیں صدیوں پر پرانی ہیں۔ برطانوی راج کے تحت سیلاب کا انتظام مقامی برادریوں سے چھین کر نوآبادیاتی ہائیڈرولوجی کے حوالے کردیا گیا تھا۔ 1841ء اور 1858ء کے سندھ کے عظیم سیلابوں کا سامنا انجینئرنگ کے جنون سے ہوا جن میں بڑے پیمانے پر پشتے، نہریں اور بیراج نمایاں تھے۔ پانی کی کٹائی اور سیلاب کے میدانی انتظام کے روایتی نظام کو ضائع کر دیا گیا۔
فطرت پنجرے میں بند تھی۔ سیلاب کو ‘قدرتی آفات’ کے طور پر دوبارہ بیان کیا گیا جسے صرف ٹیکنالوجی ہی ‘ٹھیک’ کر سکتی ہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کو یہ میراث ملی جسے ہم نے اپنی بدترین عادات سے مکمل کیا۔ ہم نے دیواریں بنائیں لیکن ان کی دیکھ بھال نہیں کی۔ ہم نے رپورٹس تیار کیں لیکن ان پر کبھی عمل نہیں کیا۔ جو کبھی نوآبادیاتی تجربہ تھا وہ اب قومی لعنت بن چکا ہے۔
دریاؤں نے ہمیں بار بار خبردار کیا ہے۔ چناب کا سیلاب 1992ء میں 9 لاکھ 48 ہزار 530 کیوسک، 1988ء میں راوی کا 5 لاکھ 76 ہزار کیوسک اور 1955ء میں ستلج کا 5 لاکھ 97 ہزار کیوسک تھا۔
ہر سیلاب ایک گرج دار یاد دہانی تھا۔ لیکن ہم سو گئے۔ رپورٹیں محفوظ کر دی گئیں، فائلیں دفن کر دی گئیں اور وارننگز کو مسترد کر دیا گیا۔ پھر 2010 آیا، ایک اور تباہی۔۔۔ پھر 2022، ایک اور آفت۔۔۔ اب 2025، ایک اور قتل عام۔۔۔ آخر ندیوں کو کتنی بار گرجنا چاہیے کہ ہمارے کانوں تک ان کی آواز پہنچ سکے؟
اس سال کا سیلاب apocalyptic (تباہ کُن) تھا۔ پشتے کھلونوں کی طرح ٹوٹ گئے۔ بیراج دباؤ میں کراہتے رہے اور ناکام ہو گئے۔ دریاؤں کا ذخیرہ شدہ قہر کھیتوں اور شہروں پر چھوڑ دیا گیا۔ پنجاب حکومت نے حیران کن تعداد کا اعتراف کیا کہ 20 لاکھ افراد متاثر، پورے گاؤں مٹ گئے، گھر اور سڑکیں ڈوب گئیں، فصلیں تباہ، کھیت تباہ، اربوں کی املاک اور زراعت کا نقصان ہوا۔

پانی بڑھتے ہی خاندان چھتوں پر چڑھ گئے جہاں وہ بچوں کو اپنے سینے میں جکڑے ہوئے تھے۔ کسانوں نے اپنی سال بھر کی فصل کو منٹوں میں ختم ہوتے دیکھا۔ غریبوں نے اپنی ملکیت کی واحد دیواروں کو مٹی میں تحلیل ہوتے دیکھا۔ یہ محض فطرت کا غصہ نہیں تھا بلکہ یہ غداری کی فصل تھی۔
اور پھر بھی، ہم ہر بار ایک ہی عذر سنتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی (climate change) کو مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ہاں، بارشیں زیادہ ہوتی ہیں، موسم زیادہ بے ترتیب ہونے سے سیلاب زیادہ آتے ہیں لیکن ہمیں دھوکا نہ دیں۔ موسمیاتی تبدیلی چنگاری ہے، دھماکا نہیں۔ مضبوط دفاع مزاحمت کرتا ہے تو کمزور دفاعی نظام ٹوٹ جاتا ہے اور پاکستان کے دفاع کو جان بوجھ کر کمزور چھوڑا گیا۔ فنڈز چھین لیے گئے، وارننگز کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس پانی نے صرف دیواریں ہی نہیں توڑیں بلکہ کئی دہائیوں کے جھوٹ کو بے نقاب کیا ہے۔
بار بار ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ پاکستان میں احتساب ہمیشہ مظلوموں سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ ہر سیلاب کے بعد ایک کمیشن بنتا ہے، رپورٹ لکھی جاتی ہے، سرخیاں چند دن چیخیں مارتی ہیں اور پھر خاموشی ہوتی ہے۔ مجرم مراعات کے ساتھ ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ سائیکل ری سیٹ ہو جاتا ہے۔ اور پھر یونہی ہر سال عوام خون سے ادائیگی کرتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کی 2010ء کی رپورٹ میں جن مجرمان کا نام لیا گیا تھا، 2025ء میں وہی مجرم انچارج ہیں، وہی پشتے ٹوٹتے ہیں، وہی بہانے بنائے جاتے ہیں۔ یہ مجرمانہ غفلت نہیں تو کیا ہے؟
2025 کا سیلاب نہ صرف اس کے پانی کے لیے، بلکہ اس کی دھوکہ دہی کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔ پہلے ہی قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک اب مزید اربوں کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ قوم کا پیٹ پالنے والے کسان اب دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ جن خاندانوں کے پاس پہلے ہی بہت کم تھا اب کچھ بھی نہیں ہے۔ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کے حالات جلد معمول پر نہیں لوٹ سکتے۔
انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو میں برسوں لگیں گے۔ اور پھر بھی، جو ادارے قومی ناکامی کا سبب ہیں وہ احتساب سے ماورا ہیں۔ فیڈرل فلڈ کمیشن اب بھی محض رپورٹس لکھتا ہے۔ محکمہ آبپاشی پنجاب اب بھی بجٹ پر دستخط کرتا ہے۔ وہی لوگ جنہوں نے کمزور پشتوں پر دستخط کیے تھے وہ اب بھی تنخواہ لیتے ہیں۔ یہ گورننس نہیں ہے۔ یہ خیانت ہے۔
پاکستان ہر دہائی میں سیلاب کا ماتم کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا گویا یہ مقدر بن گیا ہے۔ انہیں روکا جا سکتا ہے۔ اگر اداروں میں اصلاحات کی جائیں، اگر احتساب کا نفاذ ہو، اگر سیلاب کا انتظام بیان بازی سے لچک کی طرف بدل جائے۔ پشتوں کو سائنس سے دوبارہ بنایا جا سکتا ہے، شارٹ کٹ سے نہیں۔
بجٹ شفاف ہو سکتا ہے۔ رپورٹس پبلک ہو سکتی ہیں۔ اور ناکامیوں کو سزا ملنی چاہیے، ترقی نہیں۔ ناکارہ ڈھانچے پر دستخط کرنے والے انجینئرز کا نام ہونا ضروری ہے۔ وارننگز کو نظر انداز کرنے والے بیوروکریٹس کو ہٹایا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا پاکستان پانی اور خاموشی میں ڈوبتا رہے گا۔

2025ء کا المیہ صرف پانی ہی نہیں جس نے دیہات کو ڈبو دیا بلکہ اس کے بعد ہی خاموشی ہے۔ ایک خاموشی جو کہتی ہے، ‘یہ عام بات ہے‘۔ ایک خاموشی جو اداروں کو فرار ہونے دیتی ہے۔ ایک خاموشی جو اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ہم 2030ء یا 2035ء میں دوبارہ ڈوب جائیں گے۔
پاکستان کو دھوکا دیا گیا ہے۔ دریاؤں سے نہیں، وہ ہمیشہ سیلاب لاتے ہی ہیں۔ بارشوں سے نہیں وہ تو برستی ہی ہیں۔ دھوکا اپنے اپنے اداروں کی طرف سے ملا ہے۔ پاکستان کو اس کے اپنے انجینئرز کے ذریعے لوٹا گیا ہے۔ اپنے ہی بیوروکریٹس کے ہاتھوں نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نہیں مارتا، کرپشن مار دیتی ہے، غفلت مار دیتی ہے، خیانت مار دیتی ہے۔
2025 میں، 20 لاکھ پاکستانیوں نے اس سچائی کو مشکل ترین طریقے سے سیکھا۔ اور جب تک ہم تبدیلی کا مطالبہ نہیں کرتے تب تک ہم احتساب پر مجبور نہیں ہوتے، جب تک ہم ایمانداری کے ساتھ دوبارہ تعمیر نہیں کرتے، اگلا سیلاب اسے پھر سے سکھائے گا۔ پھر دوبارہ اور دوبارہ۔۔۔ جب تک پاکستان نہ صرف پانی بلکہ تاریخ کی توہین میں ڈوب جائے گا۔














لائیو ٹی وی