اداریہ: ’آج دوحہ ہے، کل کو اسرائیلی حملہ قاہرہ یا ریاض پر بھی ہوسکتا ہے‘
دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی بمباری صرف ایک فوجی کارروائی نہیں تھی۔ یہ اسٹریٹجک اعتبار سے کسی زلزلے سے کم نہیں تھا۔
منگل کو اسرائیل کے جنگی طیاروں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک رہائشی کمپاؤنڈ پر بمباری کی جس میں حماس کے جلاوطن قیادت کو نشانہ بنایا گیا جو امریکی سرپرستی میں ہونے والے غزہ جنگ بندی تجویز پر غور کرنے کے لیے وہاں موجود تھی۔
حالیہ حملے میں نشانہ بنائے جانے والے رہنما، حماس رہنماؤں کے قتل کے بعد مجبوراً جلاوطن ہوگئے تھے۔ یہ رہنما حماس کے سیاسی بیورو ہیں۔ جن کے لیے حملہ کیا گیا، وہ تو زندہ بچ گئے لیکن دیگر اس حملے میں جانبر نہ ہوسکے۔ جاں بحق افراد میں ان کے محافظین، معاونین اور قطری افسر شامل ہیں۔
یہ ایک خطرناک روایت قائم ہوگئی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل نے اپنی فوجی مہم کا دائرہ کار غزہ، لبنان، شام اور ایران سے زیادہ وسیع کیا ہے جبکہ اس نے اب ایک ایسے ملک پر حملہ کیا ہے جو عرب دنیا میں امریکا کے سب سے قریبی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔
برسوں سے اسرائیل نے ایران اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تنازع کو ایک ایسی کھلی جنگ کے طور پر دیکھا ہے جس کی کوئی سرحدیں نہیں۔ لبنان میں حزب اللہ، شام میں بشار الاسد کی سابقہ حکومت، یمن میں حوثی افواج، حتیٰ کہ ایران کی اپنی سرزمین بھی فضائی حملوں، رہنماؤں کے قتل اور تخریب کاری سے محفوظ نہ رہی۔
اگرچہ ان کارروائیوں سے عدم استحکام پیدا ہوا لیکن انہیں اکثر خطے کے دو طاقتور ممالک کے درمیان خفیہ تنازع کے حصے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ جب تک لڑائی ان گروہوں اور علاقوں تک محدود رہی، دیگر ممالک نے عموماً اسے قبول کیا۔
لیکن نہیں، قطر تو ایران کی پراکسی نہیں۔ یہ تو ایک دولت مند خلیجی امارات ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے جبکہ یہ ایک ’بڑا نان-نیٹو اتحادی‘ ہے جسے واشنگٹن نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ دوحہ پر حملہ کرکے اسرائیل نے حد عبور کی ہے جس کے علاقائی سلامتی کے لیے گہرے مضمرات ہوں گے۔ یہ کسی بھی خلیجی سلطنت پر بڑا حملہ ہے۔
اس حملے نے ایک اشارے کے طور پر کام کیا جس نے ہر عرب ملک کو متبنہ کیا ہے اور انہیں غیر آرام دہ سوالات پوچھنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا کسی بھی ملک کی خودمختاری کا واقعی احترام کیا جائے گا۔
قطر کی طرح، ترکیہ اور مصر بھی جنگ بندی مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں مذاکرات کے دوران ثالثی کے دارالحکومت پر بمباری کرنا خود سفارت کاری کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
یہ صورت حال امریکا کو بھی تنازع میں الجھا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس کی ضرورت ہے تاکہ امریکا، اسرائیل کو سمجھ بوجھ دے سکے۔ اطلاعات کے مطابق واشنگٹن کو حملے کی پیشگی بریفنگ دی گئی تھی لیکن برطانیہ و دیگر اتحادیوں کو مطلع نہیں کیا گیا۔
یہ تاثر کہ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، یہاں تک کہ قطر جیسے قریبی اتحادی کی خودمختاری کو نظر انداز کرنا، عرب ریاستوں میں شکوک و شبہات کو بڑھا دے گا کہ کیا مغربی ممالک اسرائیل کو قابو میں کرنے کے قابل ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کو واضح نتیجہ اخذ کرنا چاہیے۔ دہائیوں تک انہوں نے اسرائیلی جارحیت کا الفاظ اور قراردادوں کی صورت میں جواب دیا ہے۔ اور کھوکھلے اعلانات کی یہی وہ ریت ہے جس نے تل ابیب کو جنگی مشین میں تبدیل ہونے کی تقویت دی ہے۔
جب عرب ممالک میں اجتماعی عزم نہ ہو جیسے اسرائیل کا اقتصادی بائیکاٹ، سفارتی تعلقات منقطع کرنا اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو روکنا، تب تک اسرائیل غزہ میں اپنی جنگ کو سرحد پار دیگر ممالک تک پھیلاتا رہے گا۔
جب تک اسے نہیں روکا جاتا تب تک کوئی بھی ملک چاہے وہ علاقائی اعتبار سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، اسرائیل سے واقعی محفوظ نہیں ہے۔ آج دوحہ پر ہونے والا حملہ کل کو قاہرہ، ریاض یا دیگر ریاستوں پر بھی ہوسکتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی