صہیونیت کے دفاع میں بولنے والے چارلی کرک کے قتل میں کیا واقعی اسرائیل کا ہاتھ ہے؟
بدھ کی سہ پہر یوٹاہ کالج کیمپس میں، انتہائی دائیں بازو سمجھے جانے والے ٹرننگ پوائنٹ امریکا کے 31 سالہ بانی طلبہ سے خطاب کر رہے تھے۔ چارلی کرک پورے امریکا کے کیمپسز میں باقاعدگی سے یہ کام کرتے رہتے تھے جہاں وہ دائیں بازو کے مسیحی قوم پرست مقاصد کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے، طلبہ کے ساتھ بحث کرتے، خاص طور پر ان لوگوں کے ساتھ جو نسل، اسقاط حمل، مذہب اور بندوق جیسے مسائل پر انتہائی دائیں بازو کے مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔
چارلی کرک تشدد کے لیے گنز کے استعمال کے بارے میں ایک طالب علم کے سوال کا جواب دے رہے تھے کہ جب گولی چلنے کی آواز آئی اور ان کی گردن میں گولی لگی۔ شدید خون بہنے لگا اور وہ زمین پر گر پڑے۔ خوفزدہ ہجوم میں بھگدڑ مچ گئی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ گولی کہاں سے چلی تھی اور مزید کتنی گولیاں چلیں گی۔ چارلی کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔ انہوں نے سوگواران میں بیوی اور دو بچے چھوڑے ہیں۔
اگر آپ امریکا میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ جاننا ضروری ہے کہ چارلی کرک کون تھے اور وہ کیوں اتنے بااثر تھے کیونکہ یہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ، وائٹ ہاؤس کے آج کے عالمی نظریے کے بارے میں بھی بصیرت فراہم کرے گا اور یہ بتائے گا کہ سابقہ انتظامیہ کی طرف سے پیش کیے جانے والے خیالات سے موجودہ انتظامیہ کتنی مختلف ہے۔
ٹرننگ پوائنٹ امریکا نے کالج کیمپس میں دائیں بازو کے طلبہ کو منظم کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر اکٹھے کیے ہیں۔ جس دن چارلی کرک کی موت ہوئی، اس گروپ کے ملک بھر کے کالجز میں 850 سے زائد چیپٹرز تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ چارلی کرک کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں نے انہیں ووٹ دیا جس کی وجہ سے انہیں 2024ء کا الیکشن جیتنے میں مدد ملی۔
ٹرمپ کے جیتنے کے بعد چارلی نے اکثر وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنا شروع کر دیا تھا جیسا کہ وہ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں کیا کرتے تھے۔ درحقیقت چارلی کرک وہی تھے جنہوں نے ٹرمپ پر نائب صدر کے لیے جے ڈی وینس کے انتخاب پر زور دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں اپنے خطاب کے ذریعے چارلی کی موت کا اعلان کیا۔ انہوں نے امریکی جھنڈا سرنگوں کرنے کا حکم بھی دیا اور چارلی کرک کو بعد از مرگ صدارتی تمغہ آزادی سے نوازنے کا فیصلہ کیا۔
ان کے قتل کے بعد دائیں بازو کے رہنما اسٹیو بینن سے لے کر فاکس چینل کے سابق میزبان میگین کیلی اور ریپبلکن و کانگریس رہنماؤں تک، سب نے سوشل میڈیا پر اس قتل کی مذمت کی۔ میک امریکا گریٹ اگین (MAGA) کے حامیوں نے بائیں بازو کے لبرلز کے خلاف غصے کا اظہار کیا حالانکہ حملہ آور تو فرار ہوگیا تھا۔ ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے حالانکہ قتل کے ممکنہ محرکات کے بارے میں کچھ واضح نہیں۔
ریپبلکن اس لیے بھی مشتعل ہیں کیونکہ وہ چارلی کرک کو ایک مثالی مسیحی قوم پرست رہنما کے طور پر دیکھتے تھے جو ٹرمپ کے عہدہ چھوڑنے کے بعد ان کا کردار بھی سنبھال سکتے تھے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ چونکہ کرک نے انجیلی بشارت کی مسیحیت کی بھرپور حمایت کی تھی، اس لیے وہ ایک دن صدر کے لیے بھی انتخاب لڑ سکتے تھے۔
ان کے گروپ، ٹرننگ پوائنٹ امریکا، کو MAGA کے حامیوں کی اگلی نسل کو سیاست میں شامل کرنے کے لیے سب سے اہم قوت سمجھا جاتا تھا جوکہ ممکنہ طور پر امریکا میں انتہائی دائیں بازو کا سب سے اہم گروپ ہے۔
چارلی کرک کے قتل پر ہونے والی بحث میں ایک بین الاقوامی پہلو بھی ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ MAGA کے حامی بعض اوقات متضاد معلوم ہوتے ہیں۔ شوٹنگ کے چند منٹ بعد، واقعے کی گرافک ویڈیوز ایکس پر ہر جگہ موجود تھیں، ساتھ ہی یہ افواہیں بھی زیرِ گردش تھیں کہ قاتل کون ہے۔ ٹرمپ سمیت بہت سے لوگوں نے فوری طور پر ’بنیاد پرست بائیں بازو‘ کو مورد الزام ٹھہرایا۔ جبکہ دیگر نے گہرے نظریات تجویز کرنا شروع کیے جن میں اسرائیل کے ملوث ہونے پر بھی بات کی گئی۔
ٹی وی میزبان میگین کیلی کے ساتھ ایک انٹرویو میں، چارلی کرک نے کہا تھا کہ اگرچہ انہوں نے اسرائیل کا دفاع کیا لیکن انہیں یہ پسند نہیں آیا کہ جب انہوں نے کہا کہ امریکا کو اسرائیل کے ہر کام کی آنکھیں بند کرکے حمایت نہیں کرنی چاہیے تو انہیں کیسا ردعمل دیا گیا۔
چند مبصرین نے قیاس کیا ہے کہ چارلی کرک کی تنظیم کو فنڈز دینے والے جن میں سے اکثر یہودی ہیں، ان کے اس عہدے پر فائز ہونے سے ناخوش تھے۔ میگین کیلی کو دیے گئے انٹرویو کے علاوہ، چارلی نے ایک انٹرویو میں یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ 7 اکتوبر 2023ء میں اسرائیل کے کردار پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کئی بار اسرائیل جا چکے ہیں اور یہ ملک ایک ’قلعے‘ کی طرح ہے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے 45 منٹ میں یروشلم سے غزہ کی سرحد تک پہنچنا ممکن تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے چارلی کرک نے کہا تھا کہ یہ عجیب تھا کہ حملے کو 6 گھنٹے تک کیسے جاری رہنے دیا گیا۔
انتہائی دائیں بازو کے MAGA کا ایک ایسا طبقہ ہے جو اتنا قوم پرست ہے کہ وہ امریکی سیاست پر اسرائیلی گرفت پر ناراض ہوتے ہیں۔ چارلی ایسے حالات میں پھنس گئے تھے کہ جہاں وہ اپنے اسرائیل نواز ڈونرز کی حمایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے تھے جوکہ ان کی تنظیم کی کامیابی کے لیے بہت اہم تھا۔
بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ چارلی پر حملہ کسی تنہا انتہا پسند شخص نے نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی پیشہ ور نے یہ کام کیا ہو۔
چارلی کی موت نے امریکا میں بہت سے لوگوں کو چونکا دیا ہے جو کہ حیران کن ہے کیونکہ اب اس ملک میں سیاسی پُرتشدد اور بندوق چلانے کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ امریکا میں انتہائی سیاسی تقسیم اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ خانہ جنگی قریب ہے۔
یہ صرف قیاس آرائی ہے لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ امریکی انتہائی دائیں بازو سچائی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے افواہیں بنانے، ان پر یقین کرنے اور اسے پھیلانے میں زیادہ سرگرم ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی