’مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا مطلب غزہ اور مغربی کنارے کا دوبارہ اتحاد ہے‘
یہ بات چین بارہا دہرا چکا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے بغیر دنیا میں استحکام ممکن نہیں اور یہ کہ مسئلہ فلسطین ہمیشہ سے مشرقِ وسطیٰ کی کشیدگی کا مرکز رہا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اسرائیل-فلسطین تنازع کے پُرامن حل اور ’دو ریاستی حل‘ کے قیام کے لیے عملی لائحہ عمل وضع کیا ہے، جو اس طویل تنازع کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے۔
جمعہ کے روز اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کا مسودہ منظور کیا، جس میں نیویارک ڈیکلریشن برائے فلسطین کے مسئلے کے پُرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ کی توثیق کی گئی۔
یہ قرارداد 142 ووٹوں کے ساتھ منظور کی گئی، جس کے خلاف محض 10 ووٹ پڑے، جب کہ 12 ارکان غیر حاضر رہے، یہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ بین الاقوامی برادری فلسطینی مسئلے کے حل کے بارے میں کس مؤقف پر متفق ہے۔
یہ ڈیکلریشن جولائی میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹرز نیویارک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا نتیجہ ہے، جسے فرانس اور سعودی عرب نے منظم کیا تھا اور جو اس ماہ کے آخر میں دوبارہ منعقد ہوگی۔
تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے اس ڈیکلریشن اور اس کے ضمیمے میں واضح کیا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت میں فلسطینی ریاست کیسے قائم ہوگی، غزہ کی تعمیر نو کیسے ہوگی اور ایک متحدہ فلسطینی ریاست، اسرائیل کے ساتھ ہمسایہ تعلقات کس طرح قائم رکھے گی۔
فرانس، سعودی عرب اور کانفرنس کی ورکنگ گروپس کے شریک صدور کو اب ایسے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں جو غزہ میں جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، فلسطینی قیدیوں کی واپسی، اقوامِ متحدہ کے تعاون سے غزہ بھر میں بڑے پیمانے پر امداد کی ترسیل اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 کے مطابق اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کی طرف لے جائیں۔
جیسا کہ ڈیکلریشن میں کہا گیا ہے کہ غزہ فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہے اور اسے مغربی کنارے کے ساتھ دوبارہ یکجا کیا جانا چاہیے، فلسطینی علاقوں میں حکمرانی، قانون نافذ کرنے اور سلامتی کی ذمہ داری صرف فلسطینی اتھارٹی پر ہونی چاہیے، جس کے لیے مناسب بین الاقوامی تعاون دستیاب ہو۔
ڈیکلریشن میں فلسطینی اتھارٹی کی حمایت پر زور دیا گیا ہے جس میں حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے ارکان کی تخفیفِ اسلحہ، عسکریت سے دستبرداری اور دوبارہ انضمام کو بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ طے شدہ طریقہ کار اور ٹائم لائن کے تحت ممکن بنایا جائے، لیکن چاہے یہ اقدامات کتنے ہی تفصیل سے بیان کیے گئے ہوں، یہ ایک غیر پابند دستاویز ہے جس کے نفاذ کے لیے اسرائیل، حماس اور دیگر فریقین کا تعاون درکار ہے۔
اسے مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری ڈیکلریشن پر عمل درآمد کے لیے مربوط کوششیں کرے، سب سے زیادہ فوری ضرورت یہ ہے کہ متعلقہ اقوامِ متحدہ کے ادارے اور بڑی طاقتیں اسرائیل کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ غزہ کے راستے کھولے اور یہ یقینی بنائے کہ انسانی ہمدردی کی امداد ان فلسطینی عوام تک پہنچ سکے جو کھانے پینے کی اشیا اور روزمرہ ضروریات کے لیے سخت پریشان ہیں۔
مصر، قطر اور امریکا کی ثالثی کی کوششیں بھی جاری رہنی چاہئیں، تاکہ پہلے فوری جنگ بندی ہو، اور پھر حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کے ذریعے تمام یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کی واپسی پر معاہدہ کیا جا سکے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک متحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے کچھ بھی کرنے سے پہلے غزہ میں جنگ بندی ناگزیر ہے، ساتھ ہی محصور عوام کو انسانی امداد کی فراہمی اولین ترجیح ہے۔
اسرائیل اور تمام فلسطینی تنظیموں کو قائل کیا جانا چاہیے کہ ایک دوسرے پر حملے جاری رکھنا ’شیطانی دائرہ‘ ہے جو دونوں عوام کے لیے پائیدار امن اور خوشحالی کے حصول کے راستے میں رکاوٹ ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے ہم آہنگ ترقی کی بھی راہ میں حائل ہے۔
یہ خام خیالی ہے کہ اسرائیل یا فلسطین میں سے کوئی بھی دوسرے کو مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے، دو ہمسایہ ممالک کے طور پر پُرامن بقائے باہمی ہی فلسطینی مسئلے کا واحد حل ہے۔
چین طویل عرصے سے ’دو ریاستی حل‘ کی حمایت کرتا آیا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ ایک متحدہ فلسطینی ریاست کا قیام اس مسئلے کے مستقل حل اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار امن کے لیے ضروری ہے۔
مزید ممالک، خصوصاً یورپی ملک بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں، بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سفارتی کوششیں تیز کریں اور جو کچھ بھی ممکن ہو وہ کریں تاکہ ’دو ریاستی حل‘ حقیقت کا روپ دھار سکے۔













لائیو ٹی وی