ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کا سلسلہ جاری، کیا پاکستان افغان سرزمین پر فوجی کارروائی کرنے والا ہے؟

شائع September 15, 2025

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں کیونکہ طالبان کی جانب سے اپنے سلامتی کے خدشات پر ردعمل نہ دینے پر اسلام آباد میں مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔

یہ اس وقت ہو رہا ہے کہ جب پاکستان نے اس سال سفارتی کوششوں کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے جوکہ گزشتہ سال کی نسبت مختلف ہے کیونکہ تب اعلیٰ حکام کے درمیان بہت زیادہ کشیدگی اور کم رابطے تھے۔

دو روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے عوامی سطح پر کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان سے ہونے والے سرحد پار حملے ناقابلِ قبول ہیں۔ اس نے حالیہ کشیدگی کو عیاں کیا۔

اس سے قبل دونوں ممالک کے حکام کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ اگست کے آخر میں افغان وزارت خارجہ نے پاکستان پر اس کے دو مشرقی صوبوں ننگرہار اور خوست پر فضائی حملے کرنے کا الزام لگایا اور اسے پاکستان کا ’اشتعال انگیز عمل‘ قرار دیا جس میں متعدد شہریوں کی جانیں گئیں۔

افغان وزیر دفاع محمد یعقوب نے کہا کہ پاکستان اپنی سیکیورٹی ناکامیاں چھپانے کے لیے دہشتگردانہ حملوں کا الزام افغان سرزمین پر ڈال رہا ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے محمد یعقوب کے دعووں کا مسترد کیا اور اسے صورت حال کی سنگینی کو چھپانے کی کوشش قرار دیا۔

4 سال قبل طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ طالبان کے قبضے نے کالعدم عسکریت پسند گروہوں کو دوبارہ منظم کرنے اور سرحد پار سے حملوں کو بڑھانے کے قابل بنایا ہے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ پاکستانی حکام اور طالبان حکام کے درمیان ٹی ٹی پی پر مذاکرات کے ان گنت دوروں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان نے بارہا کابل پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرے، اس کے رہنماؤں کو گرفتار کرے اور اس کی پُرتشدد سرگرمیوں کو لگام ڈالے۔ طالبان رہنماؤں نے یقین دہانیاں کروائیں اور عمل کرنے کا وعدہ کیا جس کے لیے انہوں نے اکثر وقت طلب کیا۔ مگر انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کی جانب سے کابل کو سخت عوامی انتباہات کے باوجود، طالبان نے کوئی معنی خیز کارروائی نہیں کی۔

سرحد پار عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں، دہشتگردانہ حملوں میں اضافہ اور سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے پھر پاکستان کو افغانستان میں ٹی ٹی پی رہنماؤں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فوجی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔

ماضی کے برعکس اپریل 2024ء میں اسلام آباد نے باقاعدہ تسلیم کیا کہ اس نے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔ اس پر کابل کی جانب سے سخت الفاظ میں ردعمل سامنے آیا اور سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ تاہم اسلام آباد نے خبردار کیا ہے کہ جب تک طالبان اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے، اس وقت تک اس طرح کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

دسمبر 2024ء میں پاکستانی لڑاکا طیاروں نے صوبہ پکتیکا میں 4 مقامات پر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر غیر اعلانیہ فضائی حملے کیے تھے۔ پاکستان کی جانب سے یہ اسٹرائیکس مکین میں ایک سرحدی چوکی پر ٹی ٹی پی کے بہادر حملے کے بعد کی گئیں جس میں 16 سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ اس کارروائی نے پاکستان کو جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔

اسی کے ساتھ ہی پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندیاں سخت کر دی تھیں جس میں بہت سی اشیا پر پابندیاں شامل تھیں جو افغانستان سے پاکستان کے راستے درآمد کی جا سکتی تھیں جبکہ دو طرفہ تجارت پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اس کا مقصد اسلام آباد کے ٹی ٹی پی کے حوالے سے مطالبات کی عدم تعمیل کی وجہ سے طالبان پر اخراجات میں اضافہ کرنا تھا۔

بعدازاں پاکستان میں مقیم غیر دستاویز شدہ افغان شہریوں اور افغان شہری کارڈ رکھنے والوں کو ملک بدر کرنا شروع کردیا گیا جو پاکستانی حکام نے چند سال پہلے جاری کیے تھے۔ اب تک تقریباً 12 لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا چکا ہے جسے بہت سے لوگوں نے تیز پیش رفت کے طور پر دیکھا۔

تاہم رواں سال پاکستان نے اس دباؤ کی پالیسی سے ہٹ کر مراعات اور تنبیہ دینے کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس پالیسی نے امید ظاہر کی کہ سفارتی مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا بشمول پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے اعتماد سازی کے لیے کابل کے کئی دورے کیے اور اپریل میں افغانستان کے وزیر تجارت نورالدین عزیزی کا دورہ اسلام آباد بھی ہوا۔ اس سب کا مقصد طالبان کو ٹی ٹی پی کے بارے میں پاکستان کے خدشات پر کارروائی کرنے پر آمادہ کرنا تھا۔

تازہ ترین سفارتی کوششوں میں سب سے اہم لمحہ اس وقت آیا جب پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے اپریل 2025ء کے آخر میں کابل کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران دوطرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ مسائل پر پیش رفت ہوئی جن میں ترجیحی تجارتی معاہدہ اور افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے شامل تھے۔

پاکستان نے اس سلسلے میں طالبان کی بہت سی درخواستوں کو قبول کیا۔ طالبان نے ٹی ٹی پی کو مؤثر طریقے سے ’قابو‘ کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن یہ پھر سے کھوکھلے دعوے ثابت ہوئے۔

اس کے باوجود پاکستان نے طالبان حکام کو بات چیت کے عمل میں شامل کرنے کی اپنی سفارتی حکمت عملی جاری رکھی۔ پاکستان نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کو اسلام آباد میں بات چیت کے لیے مدعو کیا اور اگست میں کابل میں پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی اجلاس سے قبل ان کے دورے کی تیاری کی۔

تاہم وہ یہ دورہ اقوام متحدہ کی جانب سے ان پر عائد سفری پابندی کی وجہ سے نہ کرسکے۔ پاکستان نے امیر خان کو سفر کرنے کی اجازت دینے کے لیے سلامتی کونسل کی پابندیوں کی کمیٹی سے استثنیٰ طلب کی تھی لیکن اسے یہ نہ مل سکی۔ جولائی میں اسحٰق ڈار نے پاکستان، ازبکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ریل منصوبے کے فریم ورک معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے کابل کا دورہ کیا جس کا مقصد علاقائی رابطوں کو فروغ دینا تھا۔

اس کے بعد اسحٰق ڈار سہ فریقی اجلاس کے لیے دوبارہ کابل گئے جوکہ 5 ماہ میں ان کا تیسرا دورہِ افغانستان تھا۔ تمام فریقوں کے مثبت عوامی بیانات کے باوجود، اجلاس اپنے ایجنڈے کے سب سے اہم مسئلہ یعنی سیکیورٹی کے حوالے سے بےنتیجہ رہا۔

پاکستانی اور چینی دونوں وفود اس نتیجے پر مایوس ہوئے۔ کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کیا گیا کیونکہ طالبان نے اس اجلاس میں ٹی ٹی پی اور ای ٹی آئی ایم (ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ) کا نام لینے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ 2023ء میں پاکستان میں ہونے والے سابقہ سہ فریقی اجلاس کے برعکس تھا کیونکہ اس وقت جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں ان دہشتگرد تنظیموں کا نام لیا گیا تھا۔ اس نے ظاہر کیا کہ طالبان، عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کے عزم سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

اگرچہ افغانستان سے سرحد پار سے مسلسل عسکریت پسند حملوں کی وجہ سے طالبان حکومت سے پاکستان کو جتنی مایوسی ہے وہ شاید پہلے کبھی نہ تھی لیکن اسلام آباد نے کابل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ اس سے تعلقات میں خرابی کا خطرہ ہو سکتا ہے جو پاکستان کے مفادات کے مطابق نہیں۔ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ طالبان سے تجارتی تعلقات منقطع کرنا اور انہیں الگ تھلگ کرنا کارگر ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ماضی میں یہ طریقہ ان کے طرز عمل میں تبدیلی لانے میں ناکام رہا۔

اس نے پاکستان کو مشکل صورت حال میں ڈال دیا ہے۔ اس نے پہلے ہی کابل کو آگاہ کر دیا ہے کہ سرحد پار سے ہونے والے حملے جن میں بھاری جانی نقصان ہوتا ہے، پاکستان کو فوجی ردعمل دینے پر مجبور کرے گا۔

اب تک اس طرح کے کسی بھی ردعمل جیسے فضائی حملے، سرحد کے قریب علاقوں تک محدود ہیں۔ لیکن مستقبل میں پاکستان افغان سرزمین کے اندرونی علاقوں میں بھی حملہ کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کتنے پیچیدہ ہیں۔ جیسے جیسے حملے جاری ہیں اور طالبان کارروائی کرنے میں ناکام ہیں، ایسے میں پاکستان اس بات پر غور کر رہا ہے کہ وہ موجودہ مراعات اور تنبیہ دینے کی حکمت عملی کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ملیحہ لودھی

لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025