وزیراعظم کے مشیر احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی سیاست کے 2 جز ہیں، ایک پیسہ جس نے چھانگا مانگا کلچر متعارف کروایا اور دوسرا جز سیاسی سرپرستی ہے کہ ایک خاص طبقہ اعلیٰ عہدے پر فائز ہو جو کسی خدمت کے لیے نہیں بلکہ لوٹ مار کے لیے سیاست میں آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1947 میں جب ملک بنا تو نطریاتی سیاست ہوتی تھی اور لوگ عوام کی خدمت اور نظریاتی سیاست کرنے کے لیے آتے تھے لیکن 80 کی دہائی میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو مارشل لا کی گود میں پروان چڑھنے والے سیاست میں آئے جس کے سرغنہ نواز شریف ہیں اور انہوں نے پاکستان میں چھانگا مانگا کی سیاست کا آغاز کیا۔

اسلام آباد میں پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر اس تعریف کو دیکھا جائے تو یہ ایک مافیا کی تعریف ہے اور اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے ان کے لیے سیسیلین مافیا کا لفظ استعمال کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کمیشن لینے کا الزام: شہزاد اکبر نے مریم اورنگزیب کو قانونی نوٹس بھجوا دیا

شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ ہی وہ مافیا ہے جس نے سیاست میں پیسے اور سیاسی سرپرستی کا آغاز کیا اور آج بھی ہم اسے بھگت رہے ہیں۔

اس کی تازہ ترین مثال لاہور میں دیکھی گئی کہ جب ان کی صاحبزادی ایک ایسے ہی سیاسی سرپرستی میں پلے ہوئے مافیا کے گھر پر کھڑے ہو کر حکومتی کارندوں اور ریاست کی رٹ کو للکار رہی تھیں اور ثابت کررہی تھیں کہ ہم نظریات کی سیاست نہیں کریں گے اور اسی لوٹ کھسوٹ کی سیاست کو جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن یہ تصویر کشی کرنے کی کوشش کررہی کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، یہ رونا دھونا بنیادی طور پر اپنے تحفظ کے لیے کیا جارہا ہے اس کا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈھائی سال میں صرف پنجاب سے 210 ارب روپے سے زائد کی ریکوری ہوئی جس میں سے 36 لوگوں کے نام اور تفصیلات بتا رہا ہوں اور ان تمام سیاسی افراد کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔

'36 شیڈز آف پولیٹکل کرپشن' کے عنوان سے ایک دستاویز فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال یا سرکاری زمینوں پر کیے گئے قبضوں کی تفصیلات ہیں جبکہ رشوت اور دیگر لوٹ کھسوٹ الگ معاملہ ہے۔

مزید پڑھیں: براڈ شیٹ معاملے میں کی گئی ادائیگی، ماضی کی ڈیلز کی قیمت ہے، شہزاد اکبر

شہزاد اکبر نے کہا کہ ان چیزوں کے سرغنہ راولپنڈی کے کھوکھر برادران ہیں جن پر صرف قبضے کے الزام میں 3 مقدمات درج ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کھوکھر برادرا نے شیخوپورہ میں ایک ہزار 25 کنال، 7 کروڑ روپے مالیت کی ریاستی زمین پر قبضہ کیا، ان کے عالیشان محل میں نجی لوگوں کی زمینوں کے علاوہ 45 کنال سرکاری زمین پر بھی قبضہ تھا جسے ریونیو ڈپارٹمنٹ سے ثابت کرنے کے بعد واگزار کروالیا جس کی مالیت ڈیڑھ ارب روپے ہے اور 2 ماہ قبل ان سے 3 ارب روپے مالیت کی 80 کنال 4 مرلے زمین بھی واگزار کروائی گئی جسے انہوں نے اپنے فرنٹ مینوں کے نام پر رکھا ہوا تھا۔

مشیر احتساب نے بتایا کہ خرم دستگیر کے خاندان نے جی ٹی روڈ پر سوا 9 کروڑ روپے مالیت کی زمین پر سی این جی اسٹیشن قائم کررکھا تھا جہاں اب ایک عوامی پارک بنا دیا گیا ہے، آج بھی انہوں نے 3 کروڑ 70 لاکھ روپے تاوان کی مد میں دینے ہیں جس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہے اور قانونی کارروائی جاری ہے۔

اسی طرح خرم دستگیر نے ایک اور ایک کنال رقبے کی سرکاری کمرشل زمین پر قبضہ کیا تھا جس کی مالیت 6 کروڑ روپے ہے اور وہ ان سے واگزار کروالی گئی، مجموعی طور پر ساڑھے 5 کروڑ روپے تاوان کی مد میں ان سے برآمد کروانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: براڈ شیٹ کے مالک نے مسلم لیگ (ن) کا جھوٹ بے نقاب کردیا، شہزاد اکبر

مشیر احتساب نے بتایا کہ سینیٹر چودھری تنویر سے 7 ارب روپے کی بے نامی واگزار کروائی گئی ہے اس کے علاوہ راولپنڈی میں انہوں نے ایک ارب روپے کی 27 کنال کی سرکاری زمین نجی اسکول کو کرایے پر دے رکھی تھی جس کا 20-25 لاکھ روپے کرایہ بھی وصول کررہے تھے، وہ بھی واگزار کروالی گئی۔

انہوں نے کہا کہ دانیال عزیز کے والد کے نام پر 24 سو کنال سرکاری زمین تھی جو واگزار کرلی گئی اور اس کی مالیت ڈھائی ارب روپے تھی جبکہ ابھی بھی انہوں نے 4 کروڑ 80 روپے کرایے کی مد میں ادا کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا جاوید لطیف نے میاں فلور مل میں 8 کنال 2 مرلے سرکاری زمین دبائی ہوئی تھی جو واگزار کرالی گئی، شیخوپورہ میں غیر قانونی بس اڈہ بنایا ہوا تھا جسے ختم کروایا گیا، 30 کنال سرکاری زمین میاں پیپر مل اور بوہر مل میں قبضہ کر کے شامل کی گئی تھی اسے بھی واگزار کروالیا گیا، ہائی وے پر ان کا ایک پلازہ بھی بنا ہوا ہے جس پر عدالتی حکم امتناع ہے اور کارروائی جاری ہے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ عابد شیر علی سے جھنگ روڈ پر 2 ارب روپے کی سرکاری زمین واگزار کروائی گئی جو اسے آگے فروخت کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: شیخ رشید سے اختیارات کی کوئی جنگ نہیں، شہزاد اکبر

ان کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں جاوید ہاشمی کے داماد بھی شامل ہیں جن سے اوقاف کی 7 ایکڑ زرعی زمین واگزار کروائی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ مائزہ حمید کے شوہر نے محکمہ آب پاشی کی 70 ایکڑ زمین پر 2015 سے قبضہ کررکھا تھا جس کی مالیت 10 کروڑ روپے سے زائد ہے اور واگزار کروائی جارہی ہے۔

ان کا کہنا کہ یہ خاصی طویل فہرست ہے لیکن ابھی صرف 36 افراد کے نام شیئر کیے گئے ہیں، جن سے 24 ارب روپے کی ریکوری ہوئی اور 8 ہزار 85 ایکڑ زمین واگزار کروا کر قومی خزانے میں جمع کروادی گئی ہے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد ہے کہ قبضہ کیے گئے سرکاری وسائل واپس لیے جائیں اور عوامی فلاح کے کام کیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پوری پی ڈی ایم کا مقصد ذاتی مفاد کا تحفظ ہے، انہوں نے حکومت کے ساتھ قانون سازی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں بھی اس کا اعتراف کیا تھا، ان کے بڑے این آر او چاہتے ہیں اور باقی افراد جنہوں نے ان سرکاری وسائل پر قبضہ کر رکھا تھا اس کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے محکمہ انسداد بدعنوانی کی کارکردگی بہترین رہی ہے۔

مشیر احتساب نے کہا کہ دوسری جگہ سینیٹ میں سب سے زیادہ پیسے کی سیاست ہوتی ہے جہاں اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب کروانے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے اور پارلیمان میں قانون سازی بھی کی جائے گی، یہ وہ موقع ہے کہ جب یہ سیاسی جماعتیں بتائیں کہ ان کا کیا نظریہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں