سری لنکا سے نیپال تک، ’جنوبی ایشیا میں گزشتہ 4 دہائیوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے‘
دنیا انتشار کا شکار ہے لیکن کیا جنوبی ایشیا واقعی اس انتشار کو محسوس کررہا ہے؟ یورپ اس وقت تناؤ کا سامنا کررہا ہے۔ وہ یوکرین جنگ میں شکست کے دہانے پر ہے جبکہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک کے رہنما اقتصادی اور سیاسی دباؤ میں ہیں۔
امریکا اب دنیا میں تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہا ہے جبکہ اندرونی طور پر وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک سفید فام نوجوان نے سفید فام بالادستی کے رہنما کو قتل کردیا۔
امریکی ریاست یوٹاہ جہاں یہ قتل کا واقعہ ہوا، کے ریپبلکن گورنر نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ قاتل سفید فام تھا جس کا تعلق کسی اقلیتی گروپ یا تارکینِ وطن سے نہیں تھا جس کا مطلب تھا کہ دائیں بازو والے آسانی سے اس واقعے کو بائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے۔
ایسا لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 19ویں صدی کے منرو نظریے کو واپس لارہے ہیں جس نے امریکی سرزمین کے معاملات میں بیرونی مداخلت کو سختی سے منع کیا تھا۔ دوسری جانب وہ وینزویلا کو نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ اس کے چین اور ایران کے ساتھ تعلقات ہیں۔ برازیل میں صدر لولا نے اپنے دائیں بازو کے حریف جیر بولسونارو کو حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے پر جیل بھیج دیا ہے۔
امریکی حامی ارجنٹینا کے صدر اپنا کنٹرول کھوتے نظر آرہے ہیں، یہاں تک کہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ وہ بڑے سیاسی اور معاشی فیصلے کرنے میں مدد کے لیے اپنے پالتو کتے پر انحصار کرتے ہیں کہ اس کے بھونکنے کا انداز کیسا ہے۔
اس کے علاوہ یوریشیا میں شنگھائی تعاون تنظیم نے ایک نئی توانائی حاصل کی ہے۔ چین نے حال ہی میں ایک اہم سربراہی اجلاس منعقد کیا جس کے بعد فوجی طاقت کا زبردست مظاہرہ کر کے بتایا کہ اگر اس پر کبھی جنگ مسلط کی گئی تو وہ لڑنے کے لیے تیار ہے۔
مغربی ایشیا میں عرب اور مسلم ریاستیں غزہ میں اسرائیل کی بےلگام نسل کش کارروائیوں اور دوحہ پر اس کے قاتلانہ حملے سے نبرد آزما ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ حملہ وہاں موجود امریکی دفاعی فورسز کے علم میں ہوگا۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ حملے کے حوالے سے لاعلم تھے۔
جنوبی ایشیا میں نیپال میں اشرافیہ کی حکمرانی کے خلاف پُرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے جن کے نتیجے میں تیسری بار وزیراعظم بننے والے رہنما کی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ بھارتی میڈیا امید کررہا تھا کہ پُرتشدد واقعات سے پرانی بادشاہت بحال ہوجائے گی جس کی مضبوط ہندو بنیادیں تھیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چونکہ سابق بادشاہ کو ہندو دیوتا وشنو کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا، اس لیے اس بادشاہت کو واپس لانے کا مطلب نیپال کے سیکیولر (غیر مذہبی) آئین سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا جس کا امکان بہت کم ہے۔
بھارت میں بہت سے لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ کٹھمنڈو کے حکمران چاہے بادشاہ ہوں یا منتخب حکومت، چین کے ساتھ ان کے ہمیشہ مضبوط تعلقات رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کہانی ہے کہ بادشاہ نے چین سے کہا کہ وہ چین میں روپوش کچھ ماؤزے تنگ نواز جنگجوؤں کو واپس بھیج دے۔ اور چین نے جلد ہی انہیں نیپال کے حوالے کردیا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے مارچ میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ اگر ڈھاکا یونیورسٹی کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ طلبہ کی جیت کو علامت کے طور پر لیا جائے تو یہ ملک اور خطے کے مستقبل میں دلچسپ تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے حالانکہ یہ زیادہ نہیں ہوں گی۔
دوسری جانب سری لنکا کے بائیں بازو کے صدر نے امریکا کے حامی سابق وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے کو مبینہ بدعنوانی کے الزام میں جیل بھیج دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت سے جس ملک کو چاہے نشانہ بنانے والے اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے خلاف مالدیپ کے صدر عرب-اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دوحہ میں موجود تھے۔
اسی دوران پاکستان اور بھارت نے دبئی میں کرکٹ میچ کھیلا جوکہ ایک خوشگوار ایونٹ ہوسکتا تھا۔ لیکن اس پر بھارتی اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کا سایہ چھایا رہا۔ کشیدگی سے کچھ سکون اس وقت ملا کہ جب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے دل چھو لینے والی تقریر کی جس میں انہوں نے فلسطین پر قبضے اور غزہ میں جاری نسل کشی پر اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
وہیں بھارت نے اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزالل اسموٹرک کے ساتھ کئی دفاعی معاہدوں پر دستخط کرکے اپنی معمول کی روش برقرار رکھی۔ اس حرکت سے بھارت نے گلوبل ساؤتھ کے بہت سے ممالک (اور ممکنہ طور پر یورپ) کو حیران کر دیا جہاں نفرت انگیز بیزالل اسموٹرک کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔
پاکستان کے مایہ ناز شاعر فیض احمد فیض سے منسوب ایک افسانوی کہانی جنوبی ایشیا کے حالات کا بہترین نقشہ کھینچتی ہے۔ ان کے ساتھی مبینہ طور پر افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد پاکستان کو لاحق خطرات پر بات کر رہے تھے۔ بھارت سندھ پر نظریں گاڑھے ہوا تھا۔ ایران بلوچستان میں دلچسپی رکھتا تھا جبکہ سوویت یونین پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی چاہتا تھا۔
لیکن کیا فیض احمد فیض اتفاق کرتے تھے؟ کہانی کے مطابق شاعر نے سیگریٹ کا لمبا کش لیا اور راکھ کو جھاڑتے ہوئے سوچ سمجھ کر نتیجہ اخذ کیا کہ ’پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کچھ نہیں بدلے گا‘۔
نیپال ایک ایسا ملک ہے جس نے کچھ عرصہ قبل اپنی صدیوں پرانی مذہبی بادشاہت کا تختہ الٹ دیا، خود کو ایک سیکیولر جمہوریہ قرار دیا اور ماؤ نواز جنگجوؤں کو پارلیمانی جمہوریت پسندوں میں تبدیل کیا۔
کٹھمنڈو کے حالیہ مظاہروں میں کرپشن اور اقربا پروری کو حقیقی مسائل کے طور پر نمایاں کیا گیا۔ دونوں مسائل اہم ہیں جنہوں نے منتخب لیکن مبینہ طور پر بدعنوان حکومت کے خلاف غصہ بھڑکانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم یہ سنگین مسائل نااہل لیڈران کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور عوام اپنے سیاسی سرمائے کو غلط ہاتھوں میں دے سکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت میں بدعنوانی کے خلاف کئی تحریکیں چل چکی ہیں لیکن مسئلے کی جڑوں کو حل نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر ’انڈیا اگینسٹ کرپشن‘ مہم نے کاروبار میں غیرمنصفانہ پسندیدگی اور دیرینہ بدعنوانی کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے بجائے اس مہم نے منموہن سنگھ کی دوسری میعاد کو نشانہ بنایا اور نریندر مودی جیسا سربراہ بھارت کو دیا۔
اسی طرح پاکستان میں عملی طور پر تمام رہنما چاہے وہ سویلین ہوں یا فوجی، ان وعدوں کے ساتھ آئے کہ وہ نظام کو صاف کریں گے لیکن پھر وہ اسی نظام کا حصہ بن گئے۔
نیپال میں بائیں بازو کی حکومت غیرمقبول ہوچکی تھی جوکہ سری لنکا کے برعکس ہے جہاں بائیں بازو کے گوریلا صدر کی حکمرانی میں معیشت بہتر ہوئی ہے۔ مالدیپ بھی بائیں نظریات کی جانب جھکاؤ والے اپنے صدر کی قیادت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ لہٰذا زندگی اپنی معمول کی اونچ نیچ کے امتزاج کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔
پھر بھی جنوبی ایشیا میں گزشتہ 4 دہائیوں میں بہت کچھ بدلا ہے اور زیادہ تر یہ مثبت تبدیلی رہی ہے۔ 1985ء کی ڈھاکا کی پہلی سارک سربراہی اجلاس کو یاد کریں۔ اس اجلاس میں راجیو گاندھی وہ واحد رہنما تھے جو حقیقی جمہوریت کے نمائندہ تھے۔
اس وقت نیپال میں مکمل بادشاہت تھی جبکہ پاکستان میں جنرل ضیاالحق کی حکومت تھی۔ مامون عبدالقیوم مالدیپ کے جبکہ جونیئس جے وردھنے سری لنکا کے آمرانہ حکمران تھے۔ بھوٹان میں بھی بادشاہت تھی جبکہ میزبان بنگلہ دیش میں بھی فوجی آمر حسین محمد ارشد کی حکومت تھی۔
اس کے بعد سے بہت کچھ بدل چکا ہے لیکن شاید اتنا نہیں جتنا کہ فیض احمد فیض نے چاہا تھا۔ جنوبی ایشیا کی جمہوریتوں کو ان تبدیلیوں پر شکرگزار ہونا چاہیے جبکہ بھارت کے لیے بہتری کی امید کرنی چاہیے۔ اسی طرح حالات اور کردار بدل چکے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی