• KHI: Partly Cloudy 20.4°C
  • LHR: Cloudy 13.4°C
  • ISB: Rain 13.4°C
  • KHI: Partly Cloudy 20.4°C
  • LHR: Cloudy 13.4°C
  • ISB: Rain 13.4°C

سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے سپر ٹیکس لگانے کے اختیار پر سوال اٹھا دیا

شائع September 17, 2025
— فائل فوٹو: سپریم کورٹ، ویب سائٹ
— فائل فوٹو: سپریم کورٹ، ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا قومی اسمبلی کو آئین کے تحت ایسا مخصوص اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ مالی سال سے ہٹ کر بھی ٹیکس سے متعلق قانون سازی کرے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کا 5 رکنی آئینی بینچ منگل کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 4سی میں کی گئی ترمیم کے خلاف ٹیکس دہندگان کی جانب سے دائر متعدد درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا، جو ٹیکس سال 2023 پر لاگو ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے وکیل سینئر ایڈووکیٹ حافظ احسان احمد کھوکھر نے مؤقف اپنایا کہ یہ معاملہ قومی اسمبلی کی قانون سازی کی اہلیت سے متعلق نہیں ہے۔

دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت چند دنوں میں تحریری جواب جمع کرا دے گی۔

4 اپریل 2024 کو اُس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے ایک فریق کو ہدایت کی تھی کہ وہ فنانس ایکٹ 2023 کے تحت ترمیم شدہ دفعہ 4سی کے مطابق ٹیکس ادائیگی جاری رکھے۔

2015 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے متعارف کرایا گیا سپر ٹیکس اُن افراد، ایسوسی ایشنز اور کمپنیوں پر لاگو ہوتا ہے جن کی آمدن 50 کروڑ روپے سے زیادہ ہے، یہ بینکنگ کمپنیوں کی آمدن پر 4 فیصد اور دیگر شعبوں پر 3 فیصد ٹیکس عائد کرتا ہے تاکہ عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔

حافظ احسان احمد کھوکھر نے انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعات 4بی اور 4سی کی آئینی حیثیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 77 کے تحت صرف پارلیمنٹ کو ٹیکس عائد کرنے کا اختیار حاصل ہے، ان کا کہنا تھا کہ 2015 اور 2022 کے فنانس ایکٹس کے ذریعے عائد کیا گیا سپر ٹیکس مالی اختیارات کے درست استعمال کی ایک مثال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دفعہ 4 بی، جس کے تحت پہلے مرحلے میں زیادہ آمدن والے ٹیکس دہندگان پر سپر ٹیکس لگایا گیا تھا، کو تمام ہائی کورٹس پہلے ہی درست قرار دے چکی ہیں، ڈبل ٹیکسیشن، آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی اور قانون سازی کے اختیار جیسے نکات وفاق کے حق میں طے ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2022 میں متعارف کرائی گئی دفعہ 4 سی اور اس میں بتدریج شامل کی گئیں شرح اور شعبہ وار کیٹیگریز کے بارے میں ہائی کورٹس نے اصل قانون سازی کی نئی تشریح کی جو کہ عدالتی قانون سازی کے مترادف ہے۔

ان کا مؤقف تھا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت عدالتیں صرف اُن قوانین کو کالعدم قرار دے سکتی ہیں جو بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کریں، لیکن ٹیکس اسکیم کو دوبارہ تشکیل نہیں دے سکتیں، بصورت دیگر یہ عدالتی حدود سے تجاوز اور مقننہ و عدلیہ کے درمیان طاقت کے توازن کو متاثر کرتا ہے۔

سپر ٹیکس کو ڈبل ٹیکسیشن قرار دینے کے دعوے کو انہوں نے ’سراسر غلط فہمی‘ قرار دیا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 77 اور فیڈرل قانون ساز فہرست کے اندراج 47 کے تحت پارلیمنٹ کو زرعی آمدن کے سوا ہر طرح کی آمدن پر ٹیکس لگانے کا مکمل اختیار ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 2(63) میں ’ٹیکس‘ کی تعریف میں سپر ٹیکس کو بھی شامل کیا گیا ہے، جبکہ دفعہ 3 کے تحت واضح کیا گیا ہے کہ ہر ٹیکس سال کے لیے جہاں صراحت ہو، انکم ٹیکس وصول کیا جائے گا، اس طرح، ان کے مطابق سپر ٹیکس کوئی الگ ٹیکس نہیں بلکہ زیادہ آمدن والے افراد پر انکم ٹیکس کا اضافی حصہ ہے، جو سرچارج یا ایڈوانس ٹیکس کے مترادف ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025