بھارتی پنجاب میں سیلاب سے فصلیں تباہ، باسمتی چاول کی برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ
ریکارڈ مون سون بارشوں کے بعد بھارت کی ’اناج کی ٹوکری‘ تباہ ہوگئی ہے، بھارتی ریاست پنجاب میں مرجھائی ہوئی فصلوں سے بھرے کھیت، ہوا میں سڑتی ہوئی فصلوں اور مویشیوں کی بدبو بھری ہوئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ریاست پنجاب کو بھارت کا ’غلہ گھر‘ کہا جاتا ہے، جہاں مون سون بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب نے کھیتوں کو نگل لیا ہے اور بے مثال نقصان ہوا ہے، متاثرہ کھیتوں کا رقبہ لندن اور نیویارک سٹی کے برابر بنتا ہے۔
بھارت کے وزیر زراعت نے حالیہ دورہ پنجاب میں کہا کہ ’فصلیں تباہ اور برباد ہو گئی ہیں‘، جب کہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اس تباہی کو ’دہائیوں میں بدترین سیلابی آفت‘ قرار دیا ہے۔
امرتسر سے 30 کلومیٹر شمال میں واقع شہزادہ گاؤں کے رہائشی 70 سالہ بلبیر سنگھ نے کہا کہ پرانی نسل کے لوگ بھی اتفاق کرتے ہیں کہ آخری بار ایسا سب کچھ تباہ کرنے والا سیلاب ہم نے 1988 میں دیکھا تھا۔
اُبلتے پانی نے بلبیر سنگھ کے دھان کے کھیت کو دلدل میں بدل دیا اور ان کے مکان کی دیواروں میں خطرناک دراڑیں ڈال دی ہیں۔
جون سے ستمبر کے دوران برسات کے موسم میں سیلاب عام ہیں، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی اور غیر منصوبہ بند ترقی ان کی تعداد، شدت اور اثرات کو بڑھا رہی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اگست میں پنجاب میں اوسط کے مقابلے میں بارش تقریباً دو تہائی بڑھ گئی، جس سے کم از کم 52 افراد ہلاک اور 4 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پنجاب کے لیے تقریباً 18 کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔
تور گاؤں تباہ حال ہے، جہاں اجڑے کھیت، مویشیوں کی لاشیں اور گرے ہوئے مکانات کا ملبہ ہر طرف بکھرا ہے، کھیت کے مزدور سرجن لال نے بتایا کہ 26 اگست کو نصف شب کے بعد پانی آیا، یہ چند منٹوں میں کم از کم 10 فٹ (تین میٹر) تک پہنچ گیا۔
سرجن لال نے کہا کہ پنجاب کے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع گرداس پور کا یہ گاؤں تقریباً ایک ہفتے تک پانی میں گھرا رہا، ہم سب چھتوں پر تھے، ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ پانی سب کچھ بہا لے گیا، ہم جانور اور بستر تک سے محروم ہوگئے۔
ان کے قریبی سرحد کے آخری بھارتی گاؤں لَسیا کا کسان راکیش کمار اپنے نقصان گن رہا تھا، اپنی زمین کے علاوہ میں نے اس سال کچھ زمین لیز پر بھی لی تھی، میری ساری سرمایہ کاری برباد ہو گئی۔
راکیش کمار کو مستقبل دھندلا لگ رہا ہے، اُسے خدشہ ہے کہ اس کے کھیت وقت پر گندم بونے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، جو پنجاب کی پسندیدہ ربیع کی فصل ہے، انہوں نے کہا کہ پہلے یہ سارا کیچڑ سوکھے گا اور پھر ہی بڑی مشینیں آ کر مٹی کو صاف کر سکیں گی۔
عام حالات میں بھی، یہاں بھاری مشینری لانا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ یہ علاقہ مرکزی زمین سے ایک عارضی پل (پونٹون برج) کے ذریعے جڑتا ہے جو صرف خشک مہینوں میں چلتا ہے۔
زمین سے محروم مزدور 50 سالہ مندیپ کور کی غیر یقینی اور بھی زیادہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم بڑے زمینداروں کے کھیتوں میں مزدوری کر کے روزی کماتے تھے مگر اب وہ سب ختم ہو گئے۔
اس کا مکان پانی میں بہہ گیا، اور اُسے صحن میں ترپال کے نیچے سونا پڑ رہا ہے، یہ خطرناک صورت حال ہے، کیوں کہ سانپ ہر طرف نم زمین پر رینگتے ہیں۔
باسمتی کا دکھ
پنجاب بھارت کے غذائی تحفظ پروگرام کے لیے چاول اور گندم کا سب سے بڑا سپلائر ہے، جو 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو رعایتی اناج فراہم کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کے نقصانات سے اندرونِ ملک سپلائی کو خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ بڑے ذخائر موجود ہیں، مگر اعلیٰ درجے کے باسمتی چاول کی برآمدات متاثر ہونے کا امکان ہے۔
نئی دہلی میں انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اویناش کشور نے کہا کہ اصل اثر باسمتی چاول کی پیداوار، قیمتوں اور برآمدات پر ہوگا کیونکہ بھارتی اور پاکستانی پنجاب دونوں میں پیداوار کم ہوگی۔











لائیو ٹی وی