نریندر مودی اور ان کے نظریاتی بھائی بنیامن نیتن یاہو کا شکریہ!

شائع September 22, 2025

اس سے قبل کہ ہم پاکستان-سعودیہ باہمی دفاعی معاہدے کے اثرات پر بات کریں، آئیے سب سے پہلے ان دو افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اسے ممکن بنانے میں مدد کی۔

سب سے پہلے نریندر مودی جنہوں نے مئی میں اپنے غرور، انتہائی درجے کی قوم پرستی اور بھارتی صلاحیتوں کو حد سے زیادہ مضبوط سمجھ کر ایک اسٹرٹیجک غلطی کی جس کے ثمرات پاکستان کو اب بھی مل رہے ہیں۔

پاکستان پر بلااشتعال حملہ کرکے اور بدلے میں خود اپنی ٹانگ زخمی کروانے والے نریندر مودی نے نہ صرف بھارت کے عالمی تشخص کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ انتہائی اہم بات دنیا کو بتائی ہے کہ پاکستان کی فوج دنیا کی جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی سے لیس ایک بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اس پر خود پاکستانیوں سے زیادہ کوئی حیران نہ تھا۔

اس کے بعد ہمیں مودی کے اتحادی اور نظریاتی بھائی اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے خون بہانے کی اپنی نہ ختم ہونے والی ہوس اور خود کو مکمل طور پر ناقابلِ تسخیر محسوس کرتے ہوئے قطر کے دارالحکومت پر حملہ کیا جس کا مقصد حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانا تھا جو وہاں ایک میٹنگ کے سلسلے میں موجود تھے۔

اگرچہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن وہ خلیجی ریاستوں کو یہ باور کروانے میں تقریباً کامیاب ہوگئے کہ امریکی دفاعی صلاحیتوں کی کیا اہمیت ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں کس حد تک غیرمؤثر ہیں۔

اس نے یقینی طور پر ان ریاستوں کو اس بات پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے کہ اسرائیل کا توسیع پسندانہ ایجنڈا ’صرف‘ غزہ، لبنان اور شام کو اپنی زد میں نہیں لے گا بلکہ پورا خطے اس کے نشانے پر ہے۔ ہمیں یہاں حرکات کے غیر ارادی نتائج کی ایک بہترین مثال دیکھنے کو ملتی ہے۔

اس صورت حال نے اس بارے میں ایک سنجیدہ بحث کو جنم دیا ہے کہ غیر یقینی اور اسٹرٹیجک اعتبار سے مسلسل بدلتی ہوئی دنیا میں ممالک اپنی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں۔ اور ایسا کرنے کا ایک طریقہ دفاعی معاہدے کرنا ہے جو پہلے دو ممالک کے درمیان اور ممکنہ طور پر بعد میں خطے کے کئی ممالک کے درمیان علاقائی سلامتی کے مقصد سے کیے جائیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے کو اسی تناظر میں درست طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

اگرچہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں پر محیط تعلقات کا نتیجہ ہے اور اس کی منصوبہ بندی کچھ عرصے سے کی جارہی تھی لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ دوحہ میں اسرائیل کا حملہ اس معاہدے پر عجلت میں دستخط کا باعث بنا۔

اس نئے معاہدے سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ ہمیں یہ بات مدِنظر رکھنی چاہیے کہ پاکستان نے ماضی میں یمن جنگ میں شمولیت کی سعودی درخواستوں کو مسترد کردیا تھا جس نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو یقینی طور پر کافی حد تک نقصان پہنچایا تھا۔ اس دورانیے میں سعودی عرب بشمول دیگر خلیجی ممالک بھارت کے قریب ہوتے چلے گئے جوکہ پاکستان کے لیے بُرا تھا۔

لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس رجحان میں کمی واقع ہورہی ہے اور اس کا تعلق شاید بھارت کا اسرائیل کے ساتھ واضح اتحاد بھی ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں غزہ نسل کشی کے سرپرستوں کا چہرہ سمجھے جانے والے اسرائیلی وزیر بیزالل اسموترک باہمی معاہدے پر دستخط کرنے کے سلسلے میں بھارت میں موجود تھے جبکہ قطر حملے کی مذمت کرنے میں نریندر مودی کو 24 گھنٹے سسے زائد وقت لگا جبکہ انہوں نے مذمتی بیان میں اسرائیل کا نام تک نہ لیا۔

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خلیجی ریاستیں، بھارت کے ساتھ اپنے روابط منقطع کررہی ہیں لیکن ان عناصر کی بنیاد پر انہیں تعلقات پر غور ضرور کرنا چاہیے۔

قدرتی طور پر پاکستان میں کچھ انتہائی حقیقی سوالات اور خدشات موجود ہیں کہ درحقیقت یہ معاہدہ کیا ہے۔ بھارت دوبارہ پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو کیا سعودی عرب پاکستان کے دفاع میں اپنی فوج تعینات کرے گا؟ سچ کہوں تو اس کا امکان کم ہی ہے جبکہ یہ ایسا امر نہیں جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔

تاہم معاہدہ یہ کرے گا کہ بھارت کی طرف سے مستقبل کے کسی بھی جارحیت کے مضمرات کو بڑھا دے گا اور اس کے لیے ایسے کسی حملے کی منصوبہ بندی مشکل بنا دے گا۔ اگر معاہدے کی تفصیلات مبہم ہیں تو انہیں ایسا جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہے۔

عادت کے مطابق پاکستان میں دیگر آوازیں اٹھ رہی ہیں جو یہ سوال پوچھ رہی ہیں کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ایک بار پھر ’کسی اور کی جنگ‘ کا حصہ بننے جارہا ہے اور خدشات ہیں کہ کیا اس معاہدے کا اصل ہدف ایران ہے؟

اگر اس معاہدے پر چند سال یا چند ماہ پہلے دستخط کیے جاتے تو یہ خدشات درست ہوسکتے تھے۔ لیکن اب ایران خیلجی ممالک کے لیے وجودی خطرہ نہیں رہا جیسا 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے سمجھا جاتا تھا۔ درحقیقت اس بات کے واضح اشارے موجود ہیں کہ سعودی عرب اور ایران اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے اس طرح کی سوچ ایک فرسودہ خیال بن کر رہ گئی ہے۔

یہ قابلِ ذکر ہے کہ دفاعی معاہدے پر دستخط سے چند روز قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ریاض میں ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی لاریجانی کی میزبانی کی تھی۔

جہاں تک دیگر خلیجی ممالک کا تعلق ہے، یہ معاہدہ ان کے لیے ایک ماڈل کے طور پر ہے۔ مثال کے طور پر قطر کے ترکی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، اس لیے وہ انقرہ کے ساتھ بھی ایسا ہی دفاعی معاہدہ کر سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس میں بعد میں پاکستان بھی شامل ہوجائے۔

یہاں اس کھیل کا غیرمتوقع کھلاڑی متحدہ عرب امارات ہوسکتا ہے جوکہ لیبیا اور سوڈان جیسے ممالک میں تنازعات میں ملوث ہے لیکن شاید وہ اس طرح کے معاہدے سے دور ہی رہے گا کیونکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پرانحصار کرتے ہوئے وہ خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ضرار کھوڑو

ضرار کھوڑو ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ڈان نیوز ٹی وی پر پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے میزبان بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ZarrarKhuhro@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025