اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے اور اردن کے درمیان واحد سرحدی گزرگاہ آج بند کرنے کا اعلان
اسرائیل آج مقبوضہ مغربی کنارے اور اردن کے درمیان واحد سرحدی گزرگاہ کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دے گا، اسے دو روز قبل ہی دوبارہ کھولا گیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی اور اردنی حکام نے منگل کے روز کہا تھا کہ اسرائیل اگلے دن سرحد کو بند کر دے گا، یہ گزرگاہ مغربی کنارے کے بہت سے فلسطینیوں کے لیے بیرون ملک سفر کا بنیادی ذریعہ ہے اور اسی کے ذریعے اردن اور فلسطینی علاقے کے درمیان تجارتی سامان منتقل کیا جاتا ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اتوار کے روز کہا تھا کہ امریکا کے دورے سے واپسی پر ان ممالک کو اپنا ’جواب‘ دیں گے جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔
ایلنبی کراسنگ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے بیرون ملک سفر کا بنیادی راستہ ہے۔
فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا ان کئی ممالک میں شامل ہیں جو اس ہفتے فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں یا کرنے والے ہیں، تاکہ دو ریاستی حل کے لیے تحریک کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔
نیتن یاہو کے دائیں بازو کے بعض اتحادیوں نے کہا ہے کہ حکومت کو اس کے جواب میں مغربی کنارے کو ضم کر لینا چاہیے۔
اسرائیل نے پیر کے روز ایلنبی کراسنگ کو مکمل طور پر دوبارہ کھول دیا تھا، اس سے 4 روز قبل اس نے الزام لگایا تھا کہ ایک اردنی ٹرک ڈرائیور نے اس کے 2 فوجیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، واقعے کے بعد گزرگاہ بند کر دی گئی تھی۔
ایلنبی کراسنگ کی نگرانی کرنے والے اسرائیلی ادارے کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ بدھ کی صبح سے ’سیاسی قیادت کی ہدایت پر‘ بند کر دی جائے گی۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں ریلی
منگل کو مقبوضہ مغربی کنارے میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ریلی نکالی، جھنڈے لہرائے اور صدر محمود عباس کی تصاویر اٹھائیں تاکہ مغربی طاقتوں کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا جشن منا سکیں۔
رام اللہ کے مرکزی چوک میں اسپیکروں پر قوم پرستی کے نعرے گونجتے رہے، جہاں 100 سے زیادہ افراد فلسطینی اور یورپی پرچم تھامے کھڑے تھے، جن کے ہاتھوں میں موجود بینرز پر لکھا تھا کہ ’نسل کشی بند کرو‘۔
محمود عباس کی سیاسی جماعت ’فتح‘ اور فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ علاقے پر محدود کنٹرول رکھتی ہے، ان کے اعلیٰ عہدیدار ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
فتح کی مرکزی کمیٹی کے سیکریٹری جنرل جبریل رجوب نے کہا کہ ’فلسطین‘ کو تسلیم کرنا ایسے عمل کا پہلا قدم ہے جس کے جاری رہنے کی ہم امید کرتے ہیں، یہ ہماری قوم کی ایک صدی سے زیادہ مزاحمت اور عزم کا نتیجہ ہے۔
رجوب نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیویارک میں کی گئی تقاریر سن کر جذباتی ہو گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ماضی سے سیکھنا ہوگا اور عوام کو متحد کرنا ہوگا۔
فتح کی رکن، 39 سالہ ميسون محمود نے کہا کہ ہم یہاں آج اُن ممالک کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں جنہوں نے فلسطین کو تسلیم کیا، لیکن ساتھ ہی ان سے یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ جنگ کو روکنے میں ہماری مدد جاری رکھیں، دنیا کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ ذمہ داری لے۔
شمال میں طولکرم میں بھی درجنوں لوگ جمع ہوئے، اور ان ممالک کے پرچم تھامے جو اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔
لیکن بہت سے فلسطینیوں نے زمینی حالات کی تلخ حقیقت کی وجہ سے اس اقدام پر بے حسی کا اظہار کیا، طولکرم کی ایک ماہر تعلیم، رولا غانم اپنے 20 سالہ بیٹے یزن کی تصویر تھامے ہوئے رام اللہ کی ریلی کے وسط میں خاموش کھڑی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اسے 8 ماہ پہلے ہمارے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا، اور اب خراب حالات میں ہے، وہ ہر قسم کے تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں، ہم الفاظ نہیں، عمل چاہتے ہیں۔











لائیو ٹی وی