کیا فلسطین کو تسلیم کرنے کے حالیہ سلسلے کا مقصد اسرائیل کو تحفظ دینا ہے؟
چند مغربی اقوام نے دنیا کے نقشے پر عدم موجود ایک آزاد فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ ہمیشہ انتہائی پُرامید رہنے والے حلقے بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ اس علامتی اقدام سے غزہ میں نسل کشی رک جائے گی کیونکہ جب تک الفاظ پر عملی طور پر اقدامات نہیں کیے جاتے، یہ ممکن نہیں۔
لیکن ضروری نہیں کہ علامتی اقدامات ہمیشہ ہی بے معنی ہوں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کے روایتی اتحادیوں کی جانب سے فلسطین کو تاخیر سے تسلیم کیا جانا بھی کسی حد تک اخلاقی قدر رکھتا ہے کیونکہ اسرائیل تو فلسطینی ریاست کے تمام امکانات کو ختم کرنے پر مصر ہے۔
لیکن اگر فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک قابض فوج کے ساتھ اپنا گٹھ جوڑ برقرار رکھتے ہیں تو ان کے تمام اقدامات بے معنی ہیں۔ بالخصوص برطانیہ تو براہِ راست نسل کشی میں ملوث ہے۔
بنیامن نیتن یاہو کی حکومت نے جوابی اقدامات اور مغربی کنارے کے الحاق کی دھمکی دے کر فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کو ردعمل دیا ہے حالانکہ مغربی کنارے میں غیرسرکاری طور پر پہلے ہی آبادکاری جاری ہے۔ منطق پر مبنی جواب یہ ہوگا کہ اسرائیل کو فوری طور پر ہتھیاروں کی فراہمی روکی جائے۔
لیکن جہاں منافقت معمول ہوتی ہے وہاں عقل کا عمل دخل نہیں ہوتا اور اس منافقت میں ’دو ریاستی حل‘ کے مردہ وجود کا بار بار ذکر بھی شامل ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 80ویں اجلاس کے موقع پر ہونے والی سعودی-فرانسیسی اجلاس میں بھی اس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اقوام متحدہ دوسری جنگ عظیم اور اس کے ساتھ یورپ میں یہودیوں کے خلاف نسل کشی کے بعد قائم ہونے والی تنظیم کے طور پر اپنی مطابقت کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے تاکہ ’آئندہ نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچایا جا سکے‘۔ بین الاقوامی ادارے کو اس محاذ پر کامیابیوں سے زیادہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن وسیع پیمانے پر اقوامِ متحدہ کے اقدامات اور اس کے ذیلی ادارے مختلف طریقوں سے انسانیت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا تب گلوبل ساؤتھ کے بیشتر حصے بشمول برصغیر پاک و ہند جیسے مقامات یورپی نوآبادیاتی حکومت کے ماتحت تھے۔ اس کے بعد افریقی ایشیائی ریاستوں کے کثرت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آنے والی دہائیوں کے دوران اقوام متحدہ یکسر متنوع ہوتا چلا گیا جبکہ اس عالمی تنظیم نے جنوبی افریقہ کو نسل پرستی سے نجات دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا حالانکہ اس کی حمایت کرنے والے ممالک جیسے کہ امریکا اور برطانیہ بھی جنوبی افریقہ میں سفید فام حکومت کی پشت پناہی نہیں کرسکے۔
نسل پرستی کے خلاف اقدامات کے ثمرات حاصل کرنے میں تقریباً تین دہائیاں لگیں جبکہ اس عمل کو ہر طرح کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے ایجنڈا میں کسی خاص نسل کو مکمل طور پر ختم کرنا شامل نہیں تھا۔
بہر حال اس کی حالیہ تاریخ یہ بتانے میں مدد کرتی ہے کہ یہ جنوبی افریقہ ہی تھا جس نے اسرائیل کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔ اس مقدمے کا کوئی بھی فیصلہ ان فلسطینیوں کے لیے بہت دیر سے آئے گا جنہیں ہر روز قتل کیا جا رہا ہے جبکہ 1916ء کے Sykes-Picot معاہدے اور بالفور معاہدے کے ذمہ دار ممالک انسانی حقوق کی پرواہ کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں حالانکہ وہ اب بھی نسل کشی میں اپنی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسے دیکھنے کا ایک مختلف نظریہ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جوزف مساد نے پیش کیا ہے جن کا استدلال ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے حالیہ سلسلے کا مقصد ’اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے جس سے اسے ایک ایسی ریاست رہنے میں مدد ملے گی جو یہودیوں کو دیگر نسلوں پر خصوصی اہمیت دیتی ہے‘ جبکہ ’مغربی ممالک کی جانب سے فرضی فلسطین ریاست کو تسلیم کرنے کا مکمل انحصار اسرائیل کی نسل پرست ریاست کو طویل عرصے سے تسلیم کیے جانے سے جڑا ہے۔ ریاست‘ فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے جوکہ فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیلی قبضے کو سنبھالنے میں قابلِ اعتماد ٹھیکیدار کے طور پر کام کرتی ہے’۔
امریکا نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو بھی اقوام متحدہ میں پیش ہونے سے روک دیا جنہیں جوزف مساد نے ’1993ء سے اسرائیل قابض قوت کا وفادار‘ قرار دیا ہے۔
80 سال کے اقوام متحدہ سے عمر میں 9 سال بڑے محمود عباس نے امریکی ویزا سے انکار کر دیا، سعودی-فرانسیسی سرکس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اور اپنی تقریر کا زیادہ تر حصہ حماس کو مسترد کرنے میں وقف کیا۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ حماس کے اگرچہ بہت سے پہلوؤں میں خامیاں ہیں لیکن یہ عام فلسطینیوں میں الفتح سے زیادہ مقبول ہے۔ حماس 2006ء میں فلسطین کے آخری پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی لیکن اسرائیل اور مغربی اتحادیوں کی جانب سے اسے حکومت سے برطرف کردیا گیا تھا۔
اس کی وجہ سے حماس اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے درمیان ایک قسم کی خانہ جنگی شروع ہوگئی جسے اسرائیل کی حمایت حاصل تھی اور حماس غزہ پر اپنے کنٹرول کا دعویٰ کرنے پر مجبور ہوا۔ اسرائیل نے بعد میں حماس اور الفتح کے درمیان مفاہمت کی ہر کوشش کو ناکام بنایا۔
آج بہت سے حلقے حماس کو امن کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں، وہ تاریخ بھلا دیتے ہیں کہ صہیونی ریاست نے پی ایل او کی کمر توڑنے کے لیے حماس کی پشت پناہی کی تھی۔ اگر اب اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک حماس اور اس کی لڑائی کو مکمل طور پر ناقابل قبول سمجھتے ہیں تو پھر وہ فلسطینیوں سے اور کس قسم کی مزاحمت کی توقع کر رہے ہیں؟
حماس کے اسلام پسند خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن کیا ہم اس حقیقت کو مکمل طور پر نظرانداز کر سکتے ہیں کہ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ واحد گروہ ہے جو اب بھی فعال طور پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ جب تک اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست اپنی روش نہیں بدلتا، تب تک کچھ تبدیل نہیں ہونے والا ہے۔
اقوام متحدہ آج بھی متعلقہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور اسے بالآخر ان غلطیوں کا ادراک ہو سکتا ہے جو اس نے 1948ء میں کی تھیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی