یمن کی بندرگاہ پر ایل پی جی ٹینکر اسرائیلی ڈرون حملے کا نشانہ بنا، وزیر داخلہ
وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) ٹینکر کو رواں ماہ کے اوائل میں یمن کی ایک بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے دوران اسرائیلی ڈرون کے حملے کا نشانہ بنا، جس پر 27 عملے کے ارکان سوار تھے، جس میں 24 پاکستانی شامل تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنی پوسٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ ایل پی جی ٹینکر پر 27 عملے کے ارکان سوار تھے جن میں 24 پاکستانی بشمول کیپٹن مختار اکبر، 2 سری لنکن اور ایک نیپالی شہری شامل تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یمن کی بندرگاہ راس العیسیٰ (جو حوثیوں کے کنٹرول میں ہے) پر ایل پی جی ٹینکر کھڑا تھا، اس پر 17 ستمبر 2025 کو اسرائیلی ڈرون نے حملہ کیا۔
محسن نقوی نے کہا کہ حملے کے بعد ایک ایل پی جی ٹینک پھٹ گیا تاہم عملے نے آگ پر قابو پا لیا، اس کے بعد حوثیوں کی کشتیوں نے جہاز کو روک لیا اور عملے کو جہاز پر ہی یرغمال بنا لیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ الحمدللہ، ٹینکر اور اس کا پورا عملہ اب حوثیوں کی حراست سے آزاد ہے اور یمن کے پانیوں سے باہر نکل چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سیکریٹری داخلہ خرم آغا، وزارتِ داخلہ کے دیگر افسران، عمان میں سفیر نوید بخاری اور ان کی ٹیم، سعودی عرب میں ہمارے ساتھیوں اور بالخصوص ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کے ان اہلکاروں کا بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں دن رات محنت کرکے ہمارے شہریوں کی بحفاظت رہائی کو اس وقت ممکن بنایا جب امید تقریباً ختم ہو چکی تھی۔
قبل ازیں، ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ یمن کے ساحل کے قریب ایک ایل پی جی ٹینکر میں آگ لگ گئی تھی جس میں 24 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جب کہ بحری جہاز بندرگاہ سے روانہ ہونے کے بعد یمنی پانیوں سے نکل رہا ہے اور پورا عملہ خیریت سے ہے۔
تفصیلات کے مطابق میڈیا کی جانب سے یمن کے ساحل کے قریب ایل پی جی ٹینکر پر پھنسے پاکستانیوں کے بارے میں سوالات کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے بیان جاری کر دیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ 17 ستمبر 2025 کو یمن کے ساحل کے قریب ایک ایل پی جی ٹینکر میں آگ لگ گئی تھی، ٹینکر پر کثیرالملکی عملہ سوار تھا جس میں 24 پاکستانی شہری بھی شامل تھے۔
ترجمان نے بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملنے پر متعلقہ پاکستانی سفارتخانوں نے عملے کی خیریت یقینی بنانے کے لیے یمن میں حکام سے رابطہ کیا، ٹینکر کو دوبارہ چلانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔
مزید کہا کہ سفارتی مشنز نے پاکستانی عملے کے اہل خانہ سے بھی مسلسل رابطہ رکھا اور انہیں تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے رہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ آج ایل پی جی ٹینکر بندرگاہ سے روانہ ہو چکا ہے اور یمنی پانیوں سے نکل رہا ہے، پورا عملہ، بشمول پاکستانی شہری، بحفاظت اور خیریت سے ہے۔
اس سے قبل، سفارتی ذرائع نے بتایا تھا کہ یمن کی بندر گاہ کے قریب بحری جہاز پر ڈرون حملے کے باعث جہاز میں آگ لگ گئی، جہاز میں موجود عملے کے 24 پاکستانی ارکان کی جانوں کو خطرہ ہے۔
واقعہ یمن کی راس العیسیٰ بندرگاہ پر پیش آیا، جہاز تہران سے تیل لے کر یمن کی طرف جا رہا تھا، شدید آتشزدگی سے جہاز مسلسل آگ کی لپیٹ میں ہے۔
مبینہ طور پر جہاز پر موجود پاکستانی عملے کے ایک اہلکار کا آڈیو پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اس جہاز کا نام کلیپر گیس کیریئر ہے، جس پر مجموعی طور پر 27 افراد سوار ہیں، جن میں 24 پاکستانی ہیں، جب کہ 2 نیپالی اور ایک سری لنکن گارڈز شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ جہاز 6 ستمبر کو یمن کی راس العیسیٰ بندرگاہ پر کارگو ڈسچارج کرنے آیا تھا، 16 ستمبر کی شب یمنی وقت کے مطابق رات کو تقریباً 11 بجے جہاز پر 3 ڈرون حملے ہوئے، پہلے حملے کے بعد کچھ نہیں ہوا، دوسرے حملے کے بعد معمولی آگ لگی، جسے ہم نے کسی نہ کسی طرح بجھا دیا، لیکن تیسرے ڈرون حملے کے بعد بہت بڑی آگ لگ گئی۔
عملے کے پاکستانی رکن نے کہا کہ بڑی آگ لگنے پر ہم جان بچانے کے لیے لائف بوٹس لے کر سمندر میں کود گئے، جہاں سے یمنی حکام نے ہمیں ریسکیو کرلیا اور ساتھ لے گئے، پھر انہوں نے اپنی حکومت کے کچھ لوگوں سے ہمیں ملوایا، جن سے ہم نے درخواست کی کہ آگ بجھانے میں مدد کریں، کیوں کہ ہمارے پاس آگ بجھانے کا کوئی نظام نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یمنی حکام نے ہمیں ہدایت کی کہ آپ اپنے جلتے ہوئے جہاز پر دوبارہ جائیں گے، اور اسے یہاں سے دور لے جائیں گے، تاکہ ہماری بندرگاہ پر موجود دوسرے جہازوں یا تنصیبات کو آگ سے کوئی خطرہ نہ ہو، ہم نے ان کی بہت منتیں کیں اور بتایا کہ یہ جہاز کسی بھی وقت پھٹ کر تباہ ہوسکتا ہے، لیکن انہوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی، اور ہمیں زبردستی واپس جہاز پر بھیجا اور کہا کہ اسے دور لے جاکر لنگر انداز کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جان کا خطرہ لیکر دوبارہ جہاز پر گئے، 7 میل دور جہاز لنگر انداز کیا، جب واپس آنے لگے تو یمنی حکام نے کہا کہ اب اس آگ کو بجھائیں، ہمارے پاس کوئی وسائل نہیں تھے، یمنی حکام کے پاس بھی آگ بجھانے کے کوئی وسائل نہیں تھے، بہت جان توڑ کوششوں کے بعد یمنی حکام کے ساتھ مل کر 20 ستمبر کو اس آگ کو بجھا دیا گیا۔
پاکستانی کارکن کا کہنا تھا کہ جب ہم نے کہا کہ اب ہمیں جہاز سے اتاریں، کیوں کہ 4 دن ہم نے قیامت دیکھی، اور ہماری زندگیوں کو ہر لمحہ خطرہ رہا، اس پر یمنی حکام نے ہمیں گرفتار کرلیا، ہمارے جہاز کے ارد گرد اپنی بوٹس تعینات کر دیں، اب ہمیں وہ یہاں سے ہلنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے، جہاز سے مسلسل گیس لیک ہو رہی ہے، ہم سو نہیں سکتے، کھا پی نہیں پا رہے، ہماری جانوں کو خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جہاز بھی واپس لے جانے نہیں دیا جارہا، ہمارے اہل خانہ نے ہر سرکاری دفتر کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، وزارت پورٹس ایند شپنگ، وزیراعلیٰ ہاؤس سمیت تمام دستیاب حکام سے رابطے کیے، لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔
انہوں نے کہا کہ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کسی گھر میں چند کلو گیس کے سلنڈر کا دھماکا ہوجائے تو کیا صورت حال اور تباہی ہوتی ہے، خدانخواستہ اس جہاز میں دھماکا ہوگیا تو ہماری لاشوں کو تو چھوڑیں بلکہ اس جہاز کا کوئی ٹکڑا بھی نہیں ملے گا، کیوں کہ اس میں کئی میٹرک ٹن گیس لوڈ ہے۔
پاکستانی شہری نے اپیل کی ہے کہ جو کوئی شہری ہمارا پیغام سنے، اسے اعلیٰ حکام تک پہنچائے تاکہ ہماری جان بچانے کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی کوشش کی جاسکے، اس وقت جہاز میں خوف کا عالم ناقابل بیان ہے، ہم ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یمنی حکام کو اس وقت بھی اپنے جہاز اور کارگو کی قیمت کے نقصان کا خدشہ ہے، ہماری زندگیوں کی کوئی پروا نہیں، ان کی نظر میں سب سے سستی ہماری جانیں ہیں، جس ایجنسی نے ہمیں یہاں بھیجا ہے، اس کا نام خان شپنگ ہے، کراچی میں ان کا دفتر ہے، ہم نے ڈی جی پورٹس اینڈ شپنگ کو درخواستیں لکھی ہیں، ایجنسی کہتی ہے، جہاز یمن میں ہے جہاں ہم کچھ نہیں کرسکتے، خدارا ہماری مدد کی جائے۔
واضح رہے کہ یمن کے حوثی باغیوں پر اسرائیل کی جانب سے میزائل حملے عام ہیں، صہیونی ریاست آئے روز یمن میں حملے کرتی رہتی ہے، کیوں کہ یمن میں انصار اللہ تحریک (جنہیں یمنی حوثی باغی قرار دیا جاتا ہے) غزہ میں اسرائیلی حملوں کے جواب میں تل ابیب پر میزائل داغتی رہتی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے یمن کی بندرگاہوں، آئل ریفائنریز اور اہم تنصیبات پر بمباری میں رواں سال امریکا بھی شامل ہوگیا تھا، تاہم بعد ازاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یمنی حوثیوں پر بمباری روک دی تھی۔











لائیو ٹی وی