اے ڈی بی نے وسطی و مغربی ایشیا میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے تعاون کی منظوری دیدی
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے وسطی اور مغربی ایشیا میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تعاون کی منظوری دے دی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے گلیشیئرز ٹو فارمز (جی 2 ایف) نمی علاقائی پروگرام کو فعال کرنے کے لیے تکنیکی معاونت کی منظوری دے دی ہے، جو پاکستان سمیت وسطی اور مغربی ایشیا کے کئی ممالک کو شامل کرتا ہے، یہ اقدام اس وقت کیا گیا ہے جب خطے کو ماحولیاتی آفات کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔
اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق یہ معاونت کلائمٹ ایکشن روڈ میپ کی مدد کرے گی، جس میں گلیشیئرز کی نگرانی، دریائی طاس کی منصوبہ بندی اور علاقائی سطح پر علم کے تبادلے جیسے اقدامات شامل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ ممالک کو ادارہ جاتی اور عملی طریقہ کار قائم کرنے، تشخیصی رپورٹس، مطالعات اور صلاحیت بڑھانے کے لیے بھی معاونت فراہم کرے گی تاکہ پروگرام کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے ڈی بی کی ابتدائی معاونت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ جی 2 ایف پروگرام بروقت نفاذ کے مرحلے میں منتقل ہو جائے، منصوبوں میں تاخیر کم سے کم ہو، تیاری مضبوط ہو اور زرعی شعبے، صحت، سماجی تحفظ اور پانی سمیت اہم شعبوں میں اقدامات کے اثرات اور پائیداری میں اضافہ ہو۔
یہ پروگرام اے ڈی بی کے تحت چلایا جا رہا ہے اور گرین کلائمٹ فنڈ (جی سی ایف) کی ترجیحات کے مطابق ہے، اس کے ذریعے سرکاری و نجی شعبے سے 3 ارب 50 کروڑ ڈالر تک کی سرمایہ کاری جمع کی جائے گی، جس میں جی سی ایف کی طرف سے 32 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی رعایتی معاونت بھی شامل ہے، تاکہ گلیشیئر سے کھیت تک لچکدار نظام قائم کیا جا سکے۔
پروگرام ایک مکمل ایڈاپٹیشن فریم ورک قائم کرتا ہے جو اوپر کے گلیشیئر مانیٹرنگ کو نیچے زرعی شعبے، پانی کے انتظام اور آفات کے خطرات کم کرنے جیسے اقدامات سے جوڑتا ہے اور یہ سب سائنس، پالیسی اور مالیاتی نظام کے مربوط میکانزم کے ذریعے ممکن بنایا جائے گا۔
جی 2 ایف کی فزیبلٹی رپورٹ سے ظاہر ہوا ہے کہ وسطی اور مغربی ایشیا میں کلائمٹ فنانس کے نظام ناکافی ہیں اور قومی ترجیحات کے مطابق ہم آہنگ نہیں۔ گرین ٹیکسونومیز، ماحولیاتی و سماجی معیارات (ای ایس جی) اور رسک شیئرنگ میکانزمز جیسے اہم اقدامات کی کمی حکومتوں اور نجی شعبے دونوں کی جانب سے سرمایہ کاری کو بڑھانے کی صلاحیت کو متاثر کر رہی ہے۔
پروگرام کو مرحلہ وار، ماحولیاتی نظام پر مبنی پروگرام کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے جو خطے کے پلیٹ فارمز جیسے سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن پروگرام (سی اے آر ای سی) سے فائدہ اٹھاتا ہے، تاکہ دہراؤ سے بچا جا سکے اور بڑے پیمانے پر ملکوں کی قیادت میں ایڈاپٹیشن کو فروغ دیا جا سکے۔
یہ ایک علاقائی طور پر مربوط اور کثیر شعبہ جاتی کلائمٹ ایڈاپٹیشن پروگرام ہے، جس کا مقصد وسطی اور مغربی ایشیا میں 37 کروڑ سے زائد افراد کی زندگیاں، روزگار اور ماحولیاتی نظام کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ خطہ تیزی سے اور شدید ماحولیاتی اثرات کا شکار ہے، گلیشیئرز ایک فیصد سالانہ کی شرح سے پگھل رہے ہیں، پانی کا بہاؤ غیر متوقع ہوتا جا رہا ہے اور غذائی عدم تحفظ کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی صحت کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں، یہ خطرات خاص طور پر ان بڑے دریائی طاسوں میں زیادہ سنگین ہیں جیسے سندھ، آمو دریا اور سیر دریا، جہاں مقامی برادریاں برفانی پانی پر انحصار کرتی ہیں۔
وسطی و مغربی ایشیا دنیا کے تیزی سے گرم ہونے والے خطوں میں شامل ہے، جہاں اوسط درجہ حرارت ہر دہائی میں 0.2 سے 0.4 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ رہا ہے، اگر یہ رجحان جاری رہا تو 2100 تک پامیر اور تیان شان کے گلیشیئرز کا 50 فیصد سے زیادہ حجم ختم ہو سکتا ہے، جو خطے میں پانی، خوراک اور توانائی کے تحفظ کے لیے وجودی خطرہ بن جائے گا۔
گلیشیئرز کا پگھلنا پہلے ہی موسمی پانی کی دستیابی کو غیر مستحکم کر رہا ہے، قدرتی آفات جیسے گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے، برفانی تودے اور اچانک سیلاب کو بڑھا رہا ہے اور نازک زرعی نظام پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے، اس کے علاوہ، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے برف کا ذخیرہ سال کے آغاز میں ہی پگھل جاتا ہے، جس کے نتیجے میں پانی اس وقت زیادہ دستیاب ہوتا ہے جب زرعی طلب کم ہوتی ہے۔
یہ وقتی عدم توازن پانی کی فراہمی اور زرعی آبپاشی کے درمیان پیداوار کو کم کرتا ہے اور زیرزمین پانی اور ذخائر پر انحصار بڑھاتا ہے، جو پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پانی کی مقدار، معیار یا وقت میں کوئی بھی تبدیلی غیر متناسب طور پر کمزور برادریوں کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر وہ علاقے جو پہلے ہی پانی کی کمی اور کم صلاحیت کے شکار ہیں، دیہی گھرانے، خواتین کی زیرِ قیادت کھیت اور زرعی چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار، جو پہلے ہی مالیات، انفراسٹرکچر اور معاونت تک محدود رسائی رکھتے ہیں، پانی کی کمی اور پیداوار میں کمی کے اثرات سب سے پہلے برداشت کرتے ہیں۔













لائیو ٹی وی