اداریہ: ’ٹرمپ اور نیتن یاہو نے مسلم دنیا کے ساتھ مذاق کیا ہے‘
ایسا لگتا ہے کہ مسلم دنیا کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ اور بنیامن نیتن یاہو نے مذاق کیا ہے۔ اگرچہ پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک نے ابتدائی طور پر 20 نکاتی غزہ ’امن‘ منصوبے کا خیرمقدم کیا لیکن جب ان پر اس کے حقائق (کہ یہ فلسطینیوں کو ہتھیار ڈالنے، اسرائیل کو مکمل آزادی اور غزہ کو نوآبادیاتی علاقہ بنانے کے بارے میں ہے) کھلے ہیں تو وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس منصوبے میں چند تبدیلیاں کی ہیں جو پہلے اس مسودے میں پہلے موجود نہ تھیں کہ جب امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے نیویارک میں مسلم ممالک کے رہنماؤں کی بیٹھک میں اسے پیش کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شاید وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کو منگل کو وضاحت دینا پڑی کہ ’یہ ہماری دستاویز نہیں‘ حالانکہ وزیر اعظم شہباز شریف پہلے اس کے لیے پُرجوش تھے۔
دیگر مسلم ممالک بشمول سعودی عرب، مصر اور ترکیہ بھی امریکا اور اسرائیل کے اقدام کے لیے تیار نہ تھے۔ اطلاعات کے مطابق قطر نے امریکا سے کہا کہ وہ منصوبے کے اعلان کو مؤخر کرے مگر واشنگٹن نے اس درخواست کو نظر انداز کیا۔
اگر یہ اطلاعات درست ہیں کہ اسرائیل نے منصوبے میں ردوبدل کیا ہے اور اس ظالمانہ معاہدے کی مندرجات دیکھ کر شک کی گنجائش باقی بھی نہیں رہی ہے، تو مسلم دنیا کو خود کو چند اہم سوالات پوچھنے چاہیے ہیں۔
سب سے پہلے تو اسرائیل ایک ایسی ڈیل میں رد و بدل کرنے کا مجاز کیسے ہے جس پر مسلم ممالک پہلے ہی اتفاقِ رائے کرچکے تھے اور امریکا نے اسے ایسا کرنے کیوں دیا؟ دوسری بات یہ کہ فلسطینی جو اسرائیلی جارحیت سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، انہیں مشاورت کے عمل میں شامل کیے بغیر کیسے اس معاہدے کو حتمی شکل دی جاسکتی ہے؟
یہ منصوبے حماس کو غیر مسلح کرنے کے بارے میں اور یہ فلسطینی اتھارٹی کو بھی محدود کردے گا، جب تک وہ اسرائیل کے آگے معافی اور ’گناہوں‘ کی بخشش نہ مانگیں۔ اگر دو اہم فلسطینی انتظامی جماعتوں کو اس معاہدے سے الگ کردیا گیا ہے تو غزہ کو کون سنبھالے گا؟
اگر فلسطینی ’ٹیکنوکریٹس‘ جنہیں مقبوضہ پٹی کے انتظامی امور سنبھالنے ہیں، اسرائیل کی وفاداری کا حلف اٹھا لیتے ہیں اور اپنی آزاد ریاست کے تصور سے دستبردار ہوجاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ اس مایوس کُن دستاویز کو پڑھ کر یہی تاثر ملتا ہے۔
مزید یہ کہ اس منصوبے میں دو ریاستی حل کو حقیقت کا روپ دینے کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ جس میں فلسطینی ریاست کا دارالحکومت یروشلم ہوگا۔ اس میں صرف مبہم الفاظ میں ’قابلِ اعتبار راستے‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس منصوبے کے بارے میں کچھ بھی قابلِ اعتبار نہیں ہے جبکہ اس کی کامیابی کے امکانات صفر کے برابر ہیں۔ رپورٹس اشارہ کرتی ہیں کہ حماس بھی اسے ممکنہ طور پر مسترد کردے گا جبکہ الفتح میں بھی اس منصوبے کو لے کر عدم اطمینان پایا جارہا ہے۔ اگر حماس اس منصوبے کو مسترد کرتا ہے تو ٹرمپ نے ’انتہائی افسوسناک انجام‘ کی دھمکی دی ہے۔
دوسری طرف حماس کی جانب سے ردعمل کے انتظار میں اسرائیل غزہ کے شہریوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ تل ابیب کس قدر امن قائم کرنے کا ’عزم‘ رکھتا ہے۔
اگر اور جب یہ منصوبہ ناکام ہوتا ہے تو مسلم ممالک کے رہنماؤں کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ انہیں اسرائیل اور امریکا پر اندھا بھروسہ کرکے بدلے میں آخر کیا ملا؟
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی