جیکب آباد: مبینہ طور پر ایچ پی وی ویکسین لگنے کے بعد لڑکی کی موت، تحقیقاتی ٹیم پہنچ گئی

شائع October 2, 2025
ٹیم نے 3 بہنوں کو ویکسین لگائی، 2 کی حالت خراب ہوگئی، اہلخانہ انہیں ہسپتال لے گئے جہاں سمیرا دم توڑ گئی۔
— فائل فوٹو: اے ایف پی
ٹیم نے 3 بہنوں کو ویکسین لگائی، 2 کی حالت خراب ہوگئی، اہلخانہ انہیں ہسپتال لے گئے جہاں سمیرا دم توڑ گئی۔ — فائل فوٹو: اے ایف پی

جیکب آباد میں مبینہ طور پر ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) ویکسین لگنے کے بعد ایک کم عمر لڑکی کی موت کے بعد 6 رکنی محکمہ صحت کی ٹیم وجہ موت جاننے کے لیے پہنچی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اہل خانہ نے بتایا کہ سمیرا اور اس کی چھوٹی بہن نسیماں کو بے ہوش ہونے کے بعد سکھر کے ایک نجی ہسپتال لے جایا گیا تھا۔

لڑکی کے چچا گل میر نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا، جب دونوں بہنوں کو جیکب آباد ضلع کے تعلقہ ٹھل کے علاقے صدورآباد میں ایچ پی وی ویکسین لگائی گئی تھی۔

ان کے مطابق علاج کے دوران سمیرا چل بسی جب کہ اس کی بہن کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔

اہل خانہ نے نوعمر لڑکی کی موت کا ذمہ دار ایچ پی وی ویکسین کو ٹھہرایا، سمیرا کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے تعلقہ ہسپتال ٹھل لایا گیا، جس کے بعد اُسے تدفین کے لیے ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔

لڑکی کے چچا نے بتایا کہ چند روز قبل محکمہ صحت کی ایک ٹیم ان کے گھر آئی تھی، تاکہ بچیوں کو رحم کے کینسر سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے، مگر اہل خانہ نے انکار کر دیا اور ٹیم واپس چلی گئی تھی۔

اگلے روز جب گھر پر مرد موجود نہیں تھے، ویکسینیشن ٹیم دوبارہ آئی، انہوں نے گھر کی خواتین کو یقین دہانی کرائی کہ ویکسین لگوانا محفوظ ہے۔

بعدازاں، ٹیم نے 3 بہنوں، سمیرا، نسیماں اور مسرت کو ویکسین لگائی، تاہم ان میں سے 2 کی حالت خراب ہونا شروع ہوگئی، اور اہل خانہ انہیں ہسپتال لے گئے، جہاں سمیرا دم توڑ گئی۔

سندھ کے پروگرام برائے توسیعی حفاظتی ٹیکہ جات (ای پی آئی) کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر راج کمار نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ یہی ایچ پی وی ویکسین دنیا کے 150 سے زیادہ ممالک میں استعمال کی جا رہی ہے، اور دنیا بھر میں کسی بھی مریض میں اس طرح کا ردِ عمل رپورٹ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے نمائندوں سمیت ایک 6 رکنی ٹیم جیکب آباد پہنچی ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔

جیکب آباد کے ضلعی صحت افسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر سراج احمد سہتو نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جس میں ڈاکٹر ساؤز علی جکھرانی، ڈاکٹر محمد طارق میمن، ڈاکٹر ایاز احمد میمن، ڈاکٹر صائمہ سولنگی، ڈاکٹر امیر کمار اور عبدالشکور شامل ہیں، اب معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور اپنی رپورٹ جلد جمع کروائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 16 نومبر 2025
کارٹون : 15 نومبر 2025