ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان سے کیوں جا رہی ہیں؟ ماہرین کی رائے
امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی پیداوار اور تجارتی سرگرمیاں بند کر دے گی اور ری اسٹرکچرنگ پروگرام کے تحت ’تھرڈ پارٹی ڈسٹری بیوٹرز‘ پر انحصار کرے گی۔
واضح رہے کہ یہ خبر ایسے وقت میں آئی ہے، جب پچھلے تین سالوں میں کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ چکی ہیں، جن میں ایلی لِلی، شیل، مائیکروسافٹ، اوبر اور یاماہا شامل ہیں۔
کیا یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کا معاشی ماحول ملٹی نیشنلز کے لیے غیر موزوں ہے یا اس کے دیگر اسباب ہیں؟ اس حوالے سے جانتے ہیں کہ ماہرین کیا رائے ہے۔
’کمپنیوں کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں‘
صحافی خُرم حسین کے مطابق کمپنیوں کے انخلا کی اپنی وجوہات ہیں، انہوں نے بتایا کہ ’اس کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ ملک سے جانا ان کی اپنی ری اسٹرکچرنگ کا حصہ ہے۔‘
انہوں نے شیل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’کمپنی نے میکسیکو اور انڈونیشیا سمیت پاکستان میں ریٹیل فیول بزنس سے انخلا کیا ہے اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی ریٹیل انرجی سے نکل رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ زیادہ منافع والے شعبوں جیسے ایل این جی پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش میں ہیں، پاکستان سے ان کا انخلا بھی اسی عالمی ری اسٹرکچرنگ کا حصہ تھا۔
’انخلا کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ مصنوعات دستیاب نہیں ہوں گی’
پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کے سی ای او احسان ملک نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے ملٹی نیشنلز کمپنیوں کے انخلا کی متعدد وجوہات ہیں اور ان کی نوعیت ہر شعبے میں مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ دواسازی کے شعبے میں ایم این سیز قیمتوں میں تبدیلی کی منظوری میں تاخیر اور کچھ مقامی کمپنیوں کی ناقص پروموشنل پالیسیوں کی وجہ سے ملک چھوڑ دیتی ہیں، جبکہ شیل اور پی این جی جیسی کمپنیاں عالمی سطح پر ’کٹیگریز اور جغرافیوں‘ پر فوکس میں تبدیلی کے باعث نکلیں، دیگر وجوہات میں دانشورانہ املاک کے حقوق کے کمزور نفاذ کو بھی شامل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مقامی کمپنیوں سے بڑھتی مسابقت، وسیع غیر رسمی شعبہ جات اور کم ہوتے منافع گروپ کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں، جن کے ساتھ بلند ٹیکس اور کمزور روپیہ بھی کاروبار ختم کرنے کے اسباب ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیاں اکثر ’سیکیورٹی صورتحال‘ کا بھی حوالہ دیتی ہیں، لیکن کم غیر ملکی افراد کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے حالات سے نمٹنا سیکھ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ نوٹ کرنا اہم ہے کہ جانے کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ مصنوعات اور برانڈز کی پیداوار بند کی جا رہی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈسٹری بیوٹر ماڈل ان کی موجودگی برقرار رکھ سکتا ہے اور ایم این سیز اپنے برانڈز کو فروغ دینے کے لیے تھرڈ پارٹی مارکیٹ ریسرچ اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیز پر انحصار کر سکتی ہیں۔‘
’اسٹریٹجک تبدیلیاں‘
اے کے ڈی سیکیورٹیز کے ریسرچ ڈائریکٹر اویس اشرف نے کہا کہ ’ہر ملک میں مینوفیکچرنگ سہولت قائم رکھنے کے بجائے کئی کمپنیاں اسٹریٹجک تبدیلی کے تحت اپنے آپریشنز کو ریجنل حب میں منتقل کر رہی ہیں تاکہ وہ اکانومیز آف اسکیل سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں‘
انہوں نے کہا کہ ’مقامی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی بڑھتی صلاحیت، زیادہ ہنر مند ورک فورس اور جدید ٹیکنالوجیز کے استعمال‘ نے یہ سہولت دی ہے کہ ’فزیکل موجودگی کے بغیر بھی مصنوعات کی ہموار تقسیم ممکن ہو سکے۔‘











لائیو ٹی وی