غزہ جنگ کو دو سال مکمل: امن معاہدے کو پائیدار بنانے کے لیے ٹرمپ کو کیا کرنا ہوگا؟
ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر غزہ امن منصوبے کو پائیدار بنانا ہے تو اسے عربوں، بشمول مسیحی عربوں اور فلسطین یا اسرائیل کے یہودیوں کے بنیادی مفادات کے لیے یکساں اور منصفانہ ہونا چاہیے۔
منصوبے میں کمزوری یہ ہے کہ ٹرمپ-نیتن یاہو کی تاریخ ہے کہ وہ میٹھے وعدے کرکے فریقین کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسا انہوں نے ایران اور قطر کے ساتھ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے پر اعتماد کا فقدان ہے جوکہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
تصور کریں جیسا کہ منصوبے میں ذکر کیا گیا ہے، یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آگئی مگر اب وقت گزر چکا اور ان کا جینا یا مرنا بنیامن نیتن یاہو کے قاتل نظریے کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
کیا ہوگا اگر اسرائیل، ٹرمپ کی حمایت سے ایران پر وسیع پیمانے پر ایک اور حملہ کردے؟ اس سے صورت حال مکمل طور پر بدل جائے گی ناں؟ اور یوں پُرامن طور پر خطے میں ایک ساتھ رہنے کا تصور ملیا میٹ ہوجائے گا۔
یہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔ اسرائیل اور عرب کے درمیان امن کا وعدہ کرکے لوگوں نے امن کے نوبیل انعامات جیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور بنیامن نیتن یاہو کے اس معاملے میں کلیدی کردار ہونے کے تناظر میں، یہ صورت حال کس طرح پہلے سے مختلف ہے؟
نسل کش مخلوط حکومت کے اراکین پہلے ہی اپنے سخت مذہبی نظریات کی وجہ سے یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اپنے قریب آنے والے مسیحیوں کے چہروں پر تھوکیں۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ اور بری طرح پیش آتے ہیں جن سے انہوں نے ان کی زمینیں چھینی ہیں اور ان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ مکار اور قابل اعتراض بالادستی کے مذہبی احکامات کی بنیاد پر یہ زمین یہودیوں کی ہے۔
یہ بھڑکتی ہوئی لڑائی، عالمی تسلط کی جنگ لڑنے والوں کے حق میں ہے۔ اگر روس اور سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھانے کا باہمی فیصلہ کرتے ہیں تو یہ امریکی تیل کمپنیز کے برخلاف ہوگا جبکہ یہ تشدد کو بڑھانے میں کا ایک اور ممکنہ محرک ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کو مارکیٹ میں تیل کی ترسیل روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر تیل کی سپلائی روکنے سے درحقیقت روس زیادہ قیمتوں سے زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔
جیسا کہ غزہ قتل و غارت گری نے ثابت کیا ہے، خطے میں نسلی بنیادوں پر تقسیم بہت گہرائی تک سرایت کرچکی ہے۔ برطانیہ نے ایک طویل عرصے تک مذہب اور نسل کی بنیاد پر ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے اصول پر کام کیا ہے۔ اس نے یہ کامیابی سے آئرلینڈ میں لاگو کیا جس کے بعد وہ ایشیا اور افریقہ میں بھی اسی طریقہ کار پر عمل پیرا رہا۔
1917ء میں برطانیہ نے مشرقِ وسطیٰ میں بالشوزم (کمیونزم) کو روکنے کے لیے بالفور اعلامیہ جاری کیا۔ اس اقدام نے مذہبی بنیاد پر فلسطینی سرزمین کو تقسیم کیا۔ بعد میں امریکی صدر لنڈن جانسن نے وہ لگام ڈھیلی کردی جو گزشتہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اسرائیل کے گرد سخت کی تھی تاکہ امریکا صہیونی ریاست کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ناقابلِ تسخیر اتحادی کے طور پر استعمال کرسکے۔ اس کے بعد سے امریکا اور اسرائیل کے تعلقات قائم ہیں۔
تاثر پایا جارہا ہے کہ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو سعودی حکمرانوں کی منظوری حاصل ہے حالانکہ وہ بظاہر مذاکرات سے غائب رہے۔ یہ خیال کہ ریاض نوآبادیاتی آبادکار ریاست اسرائیل کو قدیم فلسطین کے تینوں مذہبی گروہوں، مسیحیوں، مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے ایک مساوی جگہ میں تبدیل کر سکتا ہے، اس کا امکان کسی معجزے سے کم نہیں۔
مصر جس کی فوجی آمریت کو ریاض کی مالی مدد حاصل ہے، وہ مذہبی-قوم پرست اخوان المسلمون کے مصری مرکز کو قابو میں رکھنے کے لیے دیتا ہے۔ ان مذاکرات میں مصر، سعودی عرب کی طرف سے بھی نیتن یاہو کے اسرائیل سے بات چیت کررہا ہے۔
7 اکتوبر 2023ء کے واقعات سے قبل، اسرائیل سے زیادہ حماس کو عرب حکومتوں کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ نیتن یاہو نے قطر کے ساتھ اتحاد بنا کر مبینہ طور پر اعتدال پسند دو ریاستوں کو قبول کرنے والی الفتح کو ناکام بنانے کے لیے سخت گیر حماس کی حمایت کی تھی۔
یہ منصوبہ اس وقت ناکام ہوگیا کہ جب مصر میں 2012ء کے صدارتی انتخابات میں اخوان المسلمون فتح یاب ہوئی بالکل اسی طرح جس طرح 2006ء کے انتخابات میں حماس نے الفتح کو شکست دی تھی۔ مغرب نے دونوں ہی انتخابات کے نتائج کو کلعدم قرار دیا جس کی یہ عادت افسانوی ہے کہ وہ ایسی جمہوریتیوں کو تحلیل کردیتا ہے کہ جو اس کے لیے بےچینی کا باعث بنیں۔
1953ء میں ایران میں محمد مصدق کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اینگلو امریکیوں نے تیل کی گندی سیاست میں پہلی ضرب کے طور پر شاہ ایران کی حکمرانی کو بحال کیا۔ اسرائیل کے اشتعال نے بعد میں تیل کی دولت سے مالا مال سابق فرانسیسی کالونی الجزائر میں مذہبی-قوم پرستوں کی فتح کو ناکام بنا دیا۔
اب اگلی باری سابق سوویت یونین کے سیکولر اتحادیوں کی تھی۔ عراق، لیبیا اور شام کو جنگ میں جھونکا گیا جس نے انہیں کمزور کیا اور یہ کسی حد تک اسرائیل کے حق میں تھا جبکہ ان تمام معاملات میں سعودی عرب نے وسائل و دیگر ذرائع سے مدد کرکے ایک کردار ادا کیا۔
پھر 1981ء میں سعودیوں نے قضیہ فلسطین پر دلکش تجویز کیوں پیش کی تھی؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بڑھتے ہوئے جوش اور غصے کو روکنا چاہتے تھے کہ جب ایرانی انقلاب ان عرب حکومتوں کے لیے خطرہ بن کر سامنے آیا جنہوں نے قضیہ فلسطین کی مکمل حمایت نہیں کی تھی؟
سعودیوں نے 1981ء میں عرب رہنماؤں کی مراکش میں فاس سربراہی کانفرنس میں اپنے منصوبے کی نقاب کشائی کی تھی۔ اس وقت آیت اللہ خمینی کے انقلاب کو مشکل سے دو سال ہی مکمل ہوئے تھے۔ یہ خطرہ اس وقت مزید سنگین ہوگیا تھا کہ جب آیت اللہ خمینی نے تہران میں اپنے گھر میں یاسر عرفات سے ملاقات کی اور مسلمانوں کے لیے مقدس یروشلم کے نام پر قدس فورس کے نام سے ایک ایلیٹ ملٹری گارڈ قائم کیا۔
سرد جنگ عروج پر تھی کہ جب سعودی علی عہد فہد نے فاس اجلاس میں یہ تجویز پیش کی۔ پہلی بار کسی عرب رہنما کے پیش کردہ منصوبے میں خاموشی سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ توقع کے مطابق عراق، شام اور لیبیا نے فہد کے دو ریاستی حل کو مسترد کردیا۔
1973ء میں سعودی عرب نے اسرائیلی حمایت کے جواب میں امریکا کو تیل کی فراہمی کے بائیکاٹ کی مہم کی قیادت کی تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ سعودی بادشاہ جس نے اس بائیکاٹ کی قیادت کی تھی، کو اس کے بھتیجے نے ہی گولی مار کر قتل کردیا۔
نئے بادشاہ جلد ہی مستقبل قریب میں اسرائیل سے لڑنے کے خیال سے پیچھے ہٹ گئے۔ برسوں بعد ٹرمپ کا نام نہاد امن منصوبہ جس میں فلسطینیوں کو اپنے وطن کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ دیا جائے گا، اس حقیقت سے سامنے آیا کہ بہت سے عرب حکمران مسئلہ فلسطین سے خوفزدہ ہیں۔
یہ معاملہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے حساس ہے۔ صہیونی پریس ٹرمپ کو فلسطینی اسکارف پہنے حماس کے حامی جبکہ نیتن یاہو کو ’گریٹر اسرائیل‘ کے مقصد سے غداری کرنے والے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
کیا فہد تجویز محض ایک مفروضہ تھا یا یہ ایک خیالی یا حقیقی موقع تھا جسے عرب دنیا نے ہاتھوں سے جانے دیا؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے، آئیے دیکھتے ہیں کہ اس منصوبے میں اصل میں کیا پیشکشیں کی گئی تھیں۔
- 1967ء میں اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس سمیت تمام عرب علاقوں سے نکل جائے گا۔
- 1967ء کے بعد عرب سرزمین بشمول عرب یروشلم پر بنی اسرائیلی بستیوں کو ختم کیا جائے گا۔
- مقدس مقامات میں تمام مذاہب کے لیے عبادت کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔
- فلسطینی پناہ گزین اپنے گھروں کو واپس جا سکتے ہیں اور جنہوں نے نہ جانے کا انتخاب کیا ہے، انہیں معاوضہ ملے گا۔
- مغربی کنارے اور غزہ مکمل طور پر آزاد ہونے سے پہلے اقوام متحدہ کے تحت ایک مختصر عبوری دور سے گزریں گے جو چند ماہ سے زیادہ نہیں ہوگا۔
- ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔
- خطے کی تمام ریاستیں خطے میں امن سے رہ سکیں۔
- اقوام متحدہ یا اس کے رکن ممالک اس تجویز میں شامل دفعات پر عمل درآمد کی ضمانت دیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی