• KHI: Partly Cloudy 28.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.5°C
  • ISB: Cloudy 20.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 28.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.5°C
  • ISB: Cloudy 20.1°C

بریتھ پاکستان: خطے میں فضائی آلودگی کا بڑھتا خطرہ، ماہرین کا مشترکہ حکمتِ عملی پر زور

شائع October 11, 2025
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار

ڈان میڈیا کے ’بریتھ پاکستان‘ اقدام کے تحت لاہور کے ایکسپو سینٹر میں فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کانفرنس میں ماہرین نے توجہ دلائی کہ یہ سرحدوں سے ماورا خطرہ ہے، اور انہوں نے اس سے نمٹنے کے لیے علاقائی تعاون بڑھانے پر زور دیا۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر داپنگ لو نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ 56 ہزار افراد فضائی آلودگی کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

کانفرنس کا انعقاد اس مقصد کے ساتھ کیا گیا کہ قابلِ عمل حل پر روشنی ڈالنے کے ساتھ اعلیٰ سطح کے مکالمے کو فروغ اور پاکستان میں صاف فضا کے لیے اجتماعی اقدامات کو آگے بڑھایا جا سکے، کانفرنس کے سیشنز میں مختلف موضوعات پر گفتگو کی گئی، جن میں حکمرانی اور پالیسی فریم ورک، صاف فضا کے لیے مالی معاونت، اسموگ اور صنعتی ذمہ داری، عدالتی معاملات، عوامی صحت پر اثرات، قومی سطح پر فضائی معیار، اور سرحد پار آلودگی پر علاقائی تعاون شامل تھے۔

جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ تقریب کے اختتام پر شرکا نے اتفاق کیا کہ پاکستان کی صاف ہوا کے لیے جدوجہد کو اب وعدوں سے پالیسی کی سطح پر اور محض اعداد و شمار سے عملی اقدامات کی جانب بڑھانا ہوگا۔

ڈان میڈیا نے اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ’بریتھ پاکستان‘ کے پلیٹ فارم کے ذریعے مکالمے کو جاری رکھے گا، تاکہ صاف فضا اور صحت مند مستقبل کے لیے اجتماعی کوششوں پر توجہ مرکوز رکھی جا سکے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ایک روزہ تقریب وفاقی و صوبائی وزرا، اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اور بین الاقوامی ماہرین کو ایک جگہ پر لائی، جنہوں نے فضائی آلودگی کے حل پر تبادلہ خیال کیا۔

پنجاب جو اسموگ سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے، وزیر اعلیٰ کی عدم موجودگی میں بھی گفتگو کا مرکزی محور رہا۔


سیشن نمبر 8: اسموگ کے دوران صحت کا بحران


عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر داپنگ لو نے آٹھویں اور آخری سیشن کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ صاف ہوا میں سانس لینا ایک بنیادی انسانی حق ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ 56 ہزار افراد فضائی آلودگی کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ کسی کے ’ بھائی، والد، بہنیں، مائیں اور بیٹے‘ ہیں، جن سب کی اپنی کہانیاں اور خواب ہیں۔

بریتھ پاکستان کانفرنس کے دوران اسموگ سے پیدا ہونے والے صحت کے بحران پر ایک پینل سیشن — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار
بریتھ پاکستان کانفرنس کے دوران اسموگ سے پیدا ہونے والے صحت کے بحران پر ایک پینل سیشن — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار

ڈاکٹر داپنگ لو کا کہنا تھا کہ فضائی آلودگی کے اثرات حقیقی اور سنگین ہیں، جبکہ ہم اس بارے میں کیا کرنے جا رہے ہیں؟ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ معاملہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ فضائی آلودگی سرحدوں سے آزاد خطرہ ہے جو سب سے زیادہ اثر کمزور اور کم وسائل رکھنے والے طبقات پر ڈالتا ہے۔


سیشن نمبر 7: قومی فضائی معیار کے انتظام کے فریم ورک کی تیاری


ماہر ماحولیات داور بٹ نے ساتویں سیشن کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے شروع کیے گئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آلودگی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کا مسئلہ 2012 میں دوبارہ شدت اختیار کرنے لگا، جب ملک میں قدرتی گیس کی فراہمی ختم ہو گئی۔

ڈائریکٹر لمز انرجی انسٹیٹیوٹ

لمز انرجی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نوید ارشد سے پوچھا گیا کہ ادارے بڑے شعبوں سے متعلق پالیسی سازی کو کیسے آگاہ کر رہے ہیں؟

قومی فضائی معیار کے انتظامی فریم ورک کی تیاری پر ایک پینل سیشن — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار
قومی فضائی معیار کے انتظامی فریم ورک کی تیاری پر ایک پینل سیشن — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار

ڈاکٹر نوید ارشد نے کہا کہ لمز انرجی انسٹیٹیوٹ مکمل ’انرجی ایکو سسٹم‘ کا جائزہ لیتا ہے اور حکومت کے پاس پالیسی سفارشات لے جانے سے پہلے اسے ملک کو درپیش چیلنجز کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے کا مقصد پالیسیوں اور حل کے نفاذ میں مدد فراہم کرنا ہے

سی ای او اربن یونٹ

سی ای او اربن یونٹ کے ڈاکٹر عمر مسعود سے جب پوچھا گیا کہ کیا تحقیق پالیسی میں دلچسپی پیدا کر رہی ہے اور کیا اسے قومی سطح پر دہرایا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر عمر مسعود نے کہا کہ شہری سطح پر مانیٹرنگ ڈیٹا کے ذریعے مقامی اقدامات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سینسر سطح کی مانیٹرنگ کے حوالے سے ایک اہم موڑ پر پہنچنے والے ہیں، مسابقت کم کرنے کےلیے ہمیں تعاون اور انضمام کی ضرورت ہے جب کہ اس موسم اور آنے والے برسوں میں ہمیں مزید ڈیٹا اسٹریمز ملیں گی جو ہمیں ہوا کے معیار کے بارے میں آگاہ کریں گی، اب یہ حکومت اور غیر سرکاری شعبے پر منحصر ہے کہ وہ اس ڈیٹا کو کس طرح ضم اور استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹو کے بانی عابد عمر

پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹو کے بانی عابد عمر نے کہا کہ ہمیں صرف ڈیٹا سے آگے بڑھنے اور اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ پالیسیز کیا ہونی چاہییں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی پاکستان اور پنجاب حکومت میں پالیسی سازی کمزور ہے کیونکہ شواہد پر مبنی پالیسی سازی ابھی تک زیادہ ترقی یافتہ صورتوں میں بھی اتنی پختہ نہیں ہوئی۔


سیشن نمبر 6: سرحدوں سے ماورا فضائی آلودگی کا تدارک


اقوامِ متحدہ کے پاکستان میں انسانی ہمدردی کے کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ نے سیشن کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی سرحدوں کی پابند نہیں ہوتیں، آلودگی کے ذرات جب ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو اُن پر کسٹمز یا امیگریشن کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔

 پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار
پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی چیز واقعی تعاون، خصوصا بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیتی ہے، تو وہ ماحولیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی کا مسئلہ ہے۔

گزشتہ سال لاہور میں اسموگ کے مسئلے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے نئی دہلی کو بھی متاثر کیا تھا، ’بریتھ پاکستان‘ کے اقدام کی خوبی یہ تھی کہ اس نے ابتدا ہی میں یہ سمجھ لیا کہ پاکستان اکیلا اس مسئلے سے نہیں نمٹ سکتا اور اگر کوئی چیز تعاون اور یکجہتی کو فروغ دے سکتی ہے تو وہ فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی ہی ہے۔

ڈاکٹر جیان گاؤ کا خطاب

چینی اکیڈمی آف انوائرنمنٹل سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف ایٹموسفیرک ریسرچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر، پروفیسر ڈاکٹر جیان گاؤ نےکہا کہ چین گزشتہ نصف صدی سے فضائی آلودگی پر قابو پانے پر توجہ دے رہا ہے۔

انہوں نے ان مختلف اقدامات پر روشنی ڈالی جو چین نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے استعمال کیے۔

سری لنکا کے رکنِ پارلیمنٹ ہرشانا راجاکارونا

سری لنکا کے رکنِ پارلیمنٹ ہرشانا راجاکارونا نے کانفرنس کے منتظمین کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ایک ایسے مسئلے پر یہ اجلاس منعقد کیا جو ہوا کی طرح آسانی سے سرحدیں عبور کر لیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سری لنکا کے عوام کو بھی آلودگی کے بارے میں تشویش ہے اور ہمارے عوام نے ناقص مقامی ذرائع اور ہمسایہ علاقوں سے آنے والی طویل فاصلے کی آلودگی کے باعث ہوا کے معیار میں بگاڑ کے کئی واقعات دیکھے ہیں۔

راجاکارونا نے اپنے ملک کو آلودگی سے نمٹنے اور اسے قابو کرنے سے متعلق مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خراب ہوا کا معیار اوسط عمر کو کم کرتا ہے، سانس اور دل کی بیماریوں کے مریضوں کی ہسپتال میں داخلے کی شرح بڑھاتا ہے، بچوں کے پھیپھڑوں کی نشوونما اور اسکول حاضری کو متاثر کرتا ہے اور مزدوروں کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسائل محض ماحولیاتی نوعیت کے نہیں بلکہ عوامی صحت، معیشت اور سماجی انصاف سے جڑے ہنگامی معاملات ہیں۔

سری لنکن رکن پارلیمنٹ نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے خطے کے لیے 3 نکاتی حکمت عملی بیان کی، جو درج ذیل ہے۔

  • علاقائی مانیٹرنگ اور ڈیٹا شیئرنگ نیٹ ورک تشکیل دینا جس میں شفاف، حقیقی وقت کا ڈیٹا حکومتوں، سائنسدانوں اور عوام کے لیے قابلِ رسائی ہو
  • سرحد پار مربوط پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد
  • بین الاقوامی شراکت داری کے ذریعے مالیات، ٹیکنالوجی اور استعداد کو متحرک کرنا

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے سفارتکاری بھی انتہائی اہم ہے، ماحولیاتی سفارت کاری کوئی ثانوی معاملہ نہیں بلکہ یہ علاقائی استحکام اور مشترکہ خوشحالی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے انصاف بھی ایک اہم پہلو ہے، چھوٹے جزیرے اور ساحل پر بسنے والی برادریوں کو دوسرے ممالک کی آلودگی کے ناپسندیدہ وصول کنندہ نہیں ہونی چاہییں بلکہ جہاں ممکن ہو، ہمیں ذمہ داری کے اشتراک کے طریقہ کار پر گفتگو کرنی چاہیے جن میں تکنیکی معاونت، تخفیف اور بحالی کے لیے مالی معاونت شامل ہو۔

انہوں نے صاف ہوا کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنانے اور ’بریتھ پاکستان‘ جیسے فورمز کے انعقاد کے ذریعے علاقائی مکالمے کو فروغ دینے کے لیے فیصلہ کن اقدامات پر پاکستان کی تعریف کی۔

ان کا کہنا تھا کہ سری لنکا پاکستان کی کوششوں سے یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور شراکت داری میں کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے مزید تجویز دی کہ سائنسدانوں، حکام اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک علاقائی ٹاسک فورس قائم کی جائے جو ایک مفاہمتی یادداشت کا مسودہ تیار کرے، جس میں مشترکہ مانیٹرنگ پروٹوکولز، ہنگامی اطلاع کے طریقہ کار اور استعداد کار میں اضافے کے منصوبے شامل ہوں۔

سری لنکا کے رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ آئیے اس لمحے کو محض بیانات کے لیے نہیں بلکہ بچوں کی صحت، معیشتوں کی مضبوطی اور ساحلی برادریوں کی عزت جیسے حقیقی اور قابلِ پیمائش اقدامات کے لیے استعمال کریں، اس معاملے پر سری لنکا پاکستان اور بحرِ ہند و جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے ساتھ کھڑا ہے۔

’فضائی آلودگی سے نمٹنے کیلئے ڈان کا کردار قابل ستائش ہے‘

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) ایشیا پیسیفک کی ریجنل ڈائریکٹر کی مشیرِ اعلیٰ برائے ماحولیاتی امور آبان مارکر کبراجی نے کہا کہ ڈان نے اس مسئلے کی تکنیکی تفہیم، مؤثر پیغام رسانی، اجتماع کی قوت اور اثرانداز ہونے کی صلاحیت کے ذریعے جو کردار ادا کیا ہے، وہ ’قابلِ ستائش‘ ہے۔

اقوامِ متحدہ کی عہدیدار آبان مارکر کبراجی کا ’بریتھ پاکستان‘ کانفرنس سے خطاب — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار
اقوامِ متحدہ کی عہدیدار آبان مارکر کبراجی کا ’بریتھ پاکستان‘ کانفرنس سے خطاب — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار

انہوں نے اس بات کو بھی سراہا کہ ڈان نے فضائی آلودگی کے مسئلے سے بار بار نمٹنے میں تسلسل اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی 99 فیصد آبادی آلودہ ہوا میں سانس لیتی ہے اور فضائی آلودگی کے باعث سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد قبل از وقت موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ لاہور، فیصل آباد، پشاور اور کراچی دنیا کے 10 سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہیں۔

آبان مارکر کبراجی نے کہا کہ سندھ و گنگ (Indus-Ganges Plain) دنیا کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں ہوا کا معیار سب سے زیادہ خراب ہے، اور اس سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش متاثر ہیں۔

انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے علاقائی فضائی معیار کے مکالمے کے فروغ کی تجویز دی، جس میں مشترکہ فضائی نظام کا انتظام، زرعی باقیات کے مشترکہ انتظام اور پنجاب و ہریانہ میں کسانوں کے لیے مراعات سمیت ڈیٹا کے تبادلے اور ہم آہنگی کو شامل کرنے پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آگے بڑھنے کا راستہ کم لاگت والے فضائی معیار کے مانیٹرنگ نظام کو وسعت دینے، قومی سطح پر طے شدہ ماحولیاتی اہداف کی 2025 میں نظرثانی میں فضائی معیار کے اہداف کو شامل کرنے، ماحولیاتی اور نجی سرمایہ کاری کو متحرک کرنے، علاقائی تعاون بڑھانے اور نوجوانوں کی قیادت میں بننے والی ایئر مانیٹرنگ ایپس کے ذریعے شہریوں کی شمولیت کو فروغ دینے میں مضمر ہے۔

ناقص حکمرانی، بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی اہم رکاوٹیں قرار

ڈبلیو ڈبلیو ایف-پاکستان کی ڈائریکٹر نظیفہ بٹ کا کہنا تھا کہ کراچی، ڈھاکا، لاہور اور نئی دہلی وہ شہر ہیں جو انتہائی موسمی حالات اور ماحولیاتی اثرات کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف-پاکستان کی ڈائریکٹر نظیفہ بٹ کا کانفرنس سے خطاب — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار
ڈبلیو ڈبلیو ایف-پاکستان کی ڈائریکٹر نظیفہ بٹ کا کانفرنس سے خطاب — مرتضیٰ علی / وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کے لیے زیادہ توانائی درکار ہوگی اور اس کے نتیجے میں فوسل فیولز (ایندھن) کے زیادہ جلنے کی ضرورت پڑے گی جب کہ ہم سب ایک ایسے جغرافیائی خطے میں بیٹھے ہیں جو ترقی، معاشی نمو اور ماحولیاتی اثرات کے لحاظ سے انتہائی خطرناک زون میں آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی کے بڑے اسباب میں تیزی سے بڑھتی شہری آبادی اور صنعتی ترقی، گاڑیوں کے دھوئیں کے اخراج اور فصلوں کی باقیات جلانا شامل ہیں۔

انہوں نے سیاسی عزم کی کمی، ناقص حکمرانی اور آلودگی سے نمٹنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی کو بھی اہم رکاوٹیں قرار دیا۔

نظیفہ بٹ نے کہا کہ ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت آگے بڑھے اور سب سے پہلے اپنی صلاحیت میں اضافہ کرے۔

آخر میں انہوں نے قانونی طور پر پابند ماحولیاتی معاہدوں اور اخراج میں کمی اور کنٹرول کے اہداف مقرر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

ایئر کوالٹی ایشیا کی صدر کا خطاب

ایئر کوالٹی ایشیا کی صدر شازیہ رفیع نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ فضائی آلودگی ایک خاموش قاتل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کو تیز کرنے کا سبب بنتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام فضائی آلودگی سرحد پار سے ہوتی ہے، کیونکہ ہوا کو کسی سرحد کا علم نہیں، یہ خلا سے بھی دیکھی جا سکتی ہے۔


سیشن نمبر 5: پاکستان میں صاف ہوا کے لیے عدالتی سرگرمی اور قانونی چارہ جوئی


صاف ہوا کیلئے عدالتی کردار پر مبنی پینل ڈسکشن کا آغاز

صاف ہوا کے لیے عدالتی کردار پر مبنی سیشن کے آغاز ہوا، جس میں سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک بھی شریک ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے بھی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عدالتی پہلو پر روشنی ڈالی۔

سیشن کی نظامت کرتے ہوئے سینیئر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ تینوں ججز میں وہ تمام 4 خوبیاں (قابلیت، تخلیقی سوچ، جرات اور ضمیر) موجود ہیں جو کسی بھی عظیم جج میں ہونی چاہییں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ماحولیاتی مقدمات کی عدالتی تاریخ بیان کی

سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے ’شاندار جج‘ جسٹس سلیم اختر نے 1993 میں کراچی میں گاڑیوں کے دھوئیں سے متعلق ایک مقدمہ سنا تھا اور ’یہ سب وہیں سے شروع ہوا‘۔

جسٹس منصور علی شاہ کانفرنس میں شریک ہیں۔ — فوٹو: مرتضیٰ علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ کانفرنس میں شریک ہیں۔ — فوٹو: مرتضیٰ علی شاہ

ان کے مطابق اس کیس میں گاڑیوں کے معائنے اور دیکھ بھال سے متعلق ہدایات جاری کی گئی تھیں، اگرچہ ’اس پر زیادہ عمل درآمد نہیں ہوا‘، مگر 1994 کا ایک تاریخی فیصلہ، جسے شہلا ضیا کیس کے نام سے جانا جاتا ہے، پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بنیادی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وضاحت کی کہ ’اس فیصلے میں پہلی بار کہا گیا کہ زندگی کے حق کا مطلب بہتر اور صحت مند زندگی کا حق بھی ہے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 1997 میں وہ ایک گروپ کا حصہ تھے جس نے لاہور ہائی کورٹ میں گاڑیوں کے دھوئیں سے متعلق درخواست دائر کی، ’اس وقت عدلیہ نے اس معاملے کو نہیں سمجھا، انہیں یہ ایک نمائشی مقدمہ لگا، ہمیں وہ احترام نہیں دیا گیا، یہ درخواست 9 سال تک زیرِ التوا رہی‘۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 1997 میں دائر کیا گیا ایک مقدمہ نو سال بعد نمٹایا گیا، جس کے نتیجے میں کئی دلچسپ اقدامات سامنے آئے، جن میں ’ٹو اسٹروک رکشوں‘ کا خاتمہ اور سی این جی بسوں کا آغاز شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’پہلی بار گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کو فضائی آلودگی کا ذریعہ تسلیم کیا گیا‘۔

ماحولیاتی مقدمات پر توجہ فیصلے کے بعد ختم ہو جاتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ ’میرا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے تو توجہ حکومت پر جاتی ہے اور وہ ردِعمل دیتی ہے، لیکن جیسے ہی مقدمہ نمٹتا ہے، وہ توجہ ختم ہو جاتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے ماحولیاتی مقدمات میں ’انتہائی سرگرم کردار‘ ادا کیا ہے، لیکن ’حکمرانی کا عنصر‘ غائب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عدالتوں نے ہمیشہ بھرپور انداز میں حکومت پر زور دیا اور اسے ہدایت کی کہ وہ فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل کو حل کرے، کیونکہ عدالتوں کے نزدیک عوام کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ نے ہمیشہ عوام اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا ہے، ’یہی ہمارا اوزار ہے، کسی شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ایک جج کے پیش نظر ہوتا ہے‘۔

تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں اور زمینی حقائق کے درمیان بہت بڑا خلا موجود ہے۔

صاف ہوا میں سانس لینا دہائیوں قبل بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جاچکا، جسٹس عائشہ ملک

سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ صاف ہوا میں سانس لینے کے حق کو کئی دہائیاں پہلے بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ اس حوالے سے ریگولیٹری سیٹ اپ میں ’کئی خلا‘ موجود ہیں۔

سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے بھی پینل ڈسکشن سے اظہار خیال کیا۔ — فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے بھی پینل ڈسکشن سے اظہار خیال کیا۔ — فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

اپنے لاہور ہائی کورٹ کے دور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اُس وقت اینٹوں کے بھٹوں اور پولٹری فارموں سے متعلق متعدد مقدمات زیر سماعت تھے، جسٹس عائشہ نے وضاحت کی کہ پولٹری فارموں کے فضلے سے بڑی مقدار میں دھواں اور بدبو خارج ہوتی ہے، جو ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ان جگہوں کے مالکان بھی عدالتوں سے رجوع کرتے تھے اور مؤقف اختیار کرتے تھے کہ ریگولیٹر ان کے ساتھ ناانصافی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ میں سیلاب، سطحی کان کنی یا جنگلات کی کٹائی سے متعلق مقدمات زیر سماعت ہوتے ہیں تو مسائل تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، اور یہ سب اس بات سے جڑے ہیں کہ ریگولیٹری ادارے ان معاملات کو کس طرح سنبھالتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ آپ کو وہ ہنگامی احساس یا سنجیدگی نظر نہیں آتی، نہ ہی وہ عزم نظر آتا ہے، جہاں انہیں یہ احساس ہو کہ لوگ جس ہوا میں سانس لے رہے ہیں، وہ زہریلی ہو چکی ہے‘۔

آرٹیکل 9 اے ہر شہری کو صاف ماحول میں جینے کا حق دیتا ہے، جسٹس جواد حسن

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 9 اے کے تحت ہر شہری کو صاف اور صحت مند ماحول میں زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ میرا فرض ہے کہ آپ کو یہ حق دوں‘۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے بھی کانفرنس سے اظہار خیال کیا۔ — فوٹو: ڈان نیوز
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے بھی کانفرنس سے اظہار خیال کیا۔ — فوٹو: ڈان نیوز

’فضائی آلودگی کے مسئلے کی صوبوں کو منتقلی حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘

جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ فضائی آلودگی کے مسئلے کو حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کا صوبوں کو منتقل کیا جانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’آلودگی کا معاملہ اب صوبوں کو منتقل کر دیا گیا ہے، قومی سطح پر اس مسئلے کی نگرانی کے لیے کوئی وفاقی دائرہ کار موجود نہیں، لہٰذا میرے خیال میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ایک بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے‘۔

جسٹس شاہ نے کہا کہ ان کے مطابق یہ مسئلہ ’تعاون پر مبنی وفاقیت‘ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت کو پالیسی یا معیارات طے کرنے میں کردار ادا کرنا ہوگا، آلودگی کے مسئلے کا صوبوں کو منتقل کیا جانا ایک پیچیدہ معاملہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے کانفرنس سے اظہار خیال کیا — فوٹو: ڈان نیوز
سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے کانفرنس سے اظہار خیال کیا — فوٹو: ڈان نیوز

’ترقی بری نہیں مگر دانشمندانہ طریقے اپنانے چاہئیں‘

سینئر پیونی جج نے مزید کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ حکومت عام آدمی کی زندگی بدلنے میں دلچسپی رکھتی ہے، یہ سارا نظام اشرافیہ کا ہے، جس کا مقصد کسی صنعت یا بااثر گروہ کو مطمئن کرنا یا تحفظ دینا ہے، لیکن عام آدمی اس تصویر میں کہیں نہیں ہے‘۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ ترقی کو ’برا‘ نہیں کہہ رہے، مگر اس کے لیے دانشمندانہ طریقے ہونے چاہییں، انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ماحولیاتی تحفظ کا ادارہ (ای پی اے) حکومت کے ماتحت ایک محکمہ ہے، ’جب وہ خود حکومت کے ماتحت ہے تو وہ حکومت کی خواہشات اور ارادوں کی مخالفت کیسے کر سکتا ہے؟‘۔

ہم فضائی آلودگی کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی تسلیم کرنے میں ناکام ہیں، جسٹس عائشہ ملک

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’آج ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ناکام ہیں کہ فضائی آلودگی دراصل ایک عوامی صحت کی ہنگامی صورتحال ہے‘۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کے جو اثرات آنے والی نسلوں پر پڑ رہے ہیں، ہم نہ اس مسئلے کو حل کر سکیں گے اور نہ ہی آنے والی نسلوں کو بچا سکیں گے‘۔

گورننس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جج نے نشاندہی کی کہ حکومت کی پالیسیاں اور قوانین تو موجود ہیں، مگر ’ان پالیسیوں کے تحت نگرانی کہاں ہے، رپورٹنگ کہاں ہے، وہ ڈیٹا کہاں ہے جس کی بنیاد پر فیصلے کیے گئے؟‘۔

جسٹس عائشہ ملک نے رپورٹنگ اور نگرانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو سائنسی شواہد درکار ہیں، سائنس کے بغیر آپ اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے‘۔

نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، جسٹس عائشہ ملک

جسٹس عائشہ ملک نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ فضائی آلودگی کے خلاف جدوجہد میں ان کا کیا کردار ہے، اور اگر وہ اپنے حقوق چاہتے ہیں تو ’چاہے وہ لکھنے، آواز اٹھانے، احتجاج کرنے یا عدالتوں سے رجوع کرنے کے ذریعے ہو‘۔

سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے کانفرنس کے پینل سینشن میں اظہار خیال کیا۔— فوٹو: ڈان نیوز
سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے کانفرنس کے پینل سینشن میں اظہار خیال کیا۔— فوٹو: ڈان نیوز

جسٹس عائشہ ملک نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اس بات پر توجہ دیں کہ فضائی آلودگی کے خلاف جدوجہد میں ان کا کیا کردار ہے، اور اگر وہ اپنے حقوق چاہتے ہیں تو ’چاہے وہ لکھیں، آواز بلند کریں، احتجاج کریں یا عدالت سے رجوع کریں، انہیں اپناکردار ادا کرنا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم اس شعبے میں مہارت کی بھی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، ہم نہیں دیکھتے کہ تعلیمی ادارے اس پر معلومات، رپورٹس اور مضامین تیار کر رہے ہوں، ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ نوجوان اس مسئلے پر توجہ دے رہے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ ’بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری‘ کا تقاضا کرتا ہے، ’اس کے لیے ارادے اور عزم کی ضرورت ہے‘۔

جسٹس منصور علی شاہ کی ’مردہ سول سوسائٹی‘ پر بھی تنقید

جسٹس سید منصور علی شاہ نے ’مردہ سول سوسائٹی‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ ’مفاد عامہ کی درخواستیں کہاں ہیں؟ آپ گھر بیٹھ کر فضائی آلودگی پر شکایت کرتے ہیں؟ آپ نے کب عدالت سے رجوع کیا؟ آپ نے کب احتجاج کیا؟

انہوں نے کہا کہ ’ایسی سول سوسائٹیاں جو مر چکی ہیں، ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے، تو پھر اسی آلودہ ہوا کے ساتھ جئیں، کیونکہ آپ نے اس کے خلاف کچھ نہیں کیا، آپ کو زیادہ سرگرم ہونا چاہیے، اپنے حق کے لیے لڑیں! اگر آپ اپنے حق کے لیے نہیں لڑیں گے تو کوئی آپ کی پرواہ نہیں کرے گا‘۔

’ججوں کو ماحولیاتی سائنس کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے‘

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ججوں کو ماحولیاتی اور موسمیاتی سائنس کو زیادہ گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے، انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ مستقبل میں ماحولیاتی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’عدلیہ میں ہمیں بہت سے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے ماحولیاتی معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہو، خاص طور پر جب ہم اپنے آئینی مسائل سے کچھ حد تک فارغ ہوجائیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’زیادہ سے زیادہ ججوں کو ماحولیات سے متعلق معاملات میں شامل اور سرگرم ہونا چاہیے‘، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں مسئلہ عدلیہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اصل رکاوٹ نفاذ کے مرحلے میں ہے، جہاں انتظامیہ عدالتی احکامات پر عمل نہیں کرتی‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماحولیاتی مسائل کو مالی وسائل کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا، ’حکومت کو درپیش بڑے مسائل میں سے ایک مالی مسئلہ ہے، کیونکہ اس مقصد کے لیے مناسب فنڈز مختص نہیں کیے گئے‘۔

جسٹس جواد حسن کا کلائمیٹ فنانسنگ کی ضرورت پر زور

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے یاد دلایا کہ نومبر 2023 میں ہونے والی کانفرنس آف دی پارٹیز 28 (کاپ28) کے دوران پاکستان ’لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ‘ کا رکن بن گیا تھا، اور کہا کہ اس معاملے میں ملک ’خوش قسمت‘ رہا۔

انہوں نے کلائمیٹ فنانسنگ پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ ’ہم عالمی مالیاتی سہولت (جی ایف ایف) یا دیگر ممالک سے قرضوں پر انحصار نہیں کر سکتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں فنڈنگ کی ضرورت ہے، ہمیں کلائمٹ فنانس کی ضرورت ہے، اب ہمارے پاس ایک فریم ورک موجود ہے، اور وزیرِ خزانہ اس پر کام کر رہے ہیں، اس سلسلے میں جلد ہی ایک اجلاس ہوگا‘۔


سیشن نمبر 4: اسموگ ایکویشن


ای بی ایم کی منیجنگ ڈائریکٹر کی قومی کلین ایئر فورم کے قیام کی تجویز

انگلش بسکٹ مینوفیکچررز (ای بی ایم) کی منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او زیلاف منیر نے دن کے چوتھے سیشن ’اسموگ ایکویشن‘ سے خطاب کیا، اپنی کلیدی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’ہر سال جب سرمئی آسمان لوٹ آتا ہے تو یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آج کی قیادت کا معیار صرف ترقی یا منافع نہیں بلکہ اس ہوا کے معیار سے ناپا جانا چاہیے جس میں لوگ سانس لیتے ہیں‘۔

انگلش بسکٹس مینوفیکچررز کی ایم ڈی اور سی ای او زیلاف منیر نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ — تصویر: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
انگلش بسکٹس مینوفیکچررز کی ایم ڈی اور سی ای او زیلاف منیر نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ — تصویر: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ صاف ہوا ایک ایسی ذمہ داری ہے جو ہم سب پر عائد ہوتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ فضائی آلودگی پاکستان کی معیشت کو اس کی مجموعی قومی پیداوار کے تقریباً 6 فیصد کے برابر نقصان پہنچاتی ہے، جو صحت اور تعلیم پر مجموعی اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔

صاف ہوا معاشی ضرورت ہے، ایم ڈی انگلش بسکٹس مینوفیکچررز

انہوں نے کہا کہ ’یہ ہماری افرادی قوت کو کمزور کرتی ہے، صحت کے اخراجات بڑھاتی ہے اور سرمایہ کاری کو روکتی ہے، صاف ہوا کوئی سماجی مہم نہیں بلکہ ایک معاشی ضرورت ہے‘۔

زیلاف منیر نے کہا کہ اگلا قدم پاکستان کے ماحولیاتی فریم ورک میں اشتراکِ عمل کو شامل کرنا ہے تاکہ انفرادی کوششوں سے نکل کر ایک مشترکہ حکمتِ عملی کی طرف بڑھا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ’اسی لیے میں قومی کلین ایئر فورم کے قیام کی تجویز دے رہی ہوں، ایک مستقل پلیٹ فارم جہاں حکومت، صنعتیں، تعلیمی ادارے اور این جی اوز تعاون کریں، ڈیٹا شیئر کریں اور عملی حل مل کر وضع کریں، ایک ایسی جگہ جہاں تحقیق اور ضابطہ سازی ایک دوسرے سے جڑ جائیں‘۔

بیجنگ آلودگی پر قابو پاسکتا ہے تو پاکستان بھی ایسا کرسکتا ہے، آصف بیگ محمد

پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے بورڈ آف مینجمنٹ کے چیئرمین آصف بیگ محمد نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ ’ہم کسی اور کے کچھ کرنے کے منتظر ہیں، میری عاجزانہ گزارش ہے کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم خود کیا کر سکتے ہیں‘۔

پی ایس او کے بورڈ آف مینجمنٹ کے چیئرمین آصف بیگ محمد نے کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔ — تصویر: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
پی ایس او کے بورڈ آف مینجمنٹ کے چیئرمین آصف بیگ محمد نے کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔ — تصویر: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ اگر بیجنگ فضائی آلودگی پر قابو پا سکتا ہے تو پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے۔

آصف بیگ محمد نے بتایا کہ پی ایس او اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ کس طرح اپنے کام کو زیادہ پائیدار اور منافع بخش بنایا جا سکتا ہے، انہوں نے مثال دی کہ کمپنی کے 760 مراحل کو کم کر کے 430 کر دیا گیا ہے اور ان تمام عمل کو ڈیجیٹلائز کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہی کلیدی نکتہ ہے، اسے منافع بخش ہونا چاہیے‘۔

آصف بیگ محمد نے مزید بتایا کہ پی ایس او نے لیتھیم آئن بیٹریز، سالڈ اسٹیٹ بیٹریز اور سپر کیپیسیٹرز کے لیے عالمی سطح کی ممتاز ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی آئندہ 10 برسوں میں صارفین کے ٹرانسپورٹ اخراجات میں 40 فیصد کمی لانے پر کام کر رہی ہے، جس سے تیل کی درآمدات میں بھی ’40 فیصد کمی‘ ممکن ہوگی۔

اسموگ اب محض ایک موسمی تکلیف نہیں رہی، رومینہ خورشید عالم

وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا پختہ یقین ہے کہ اسموگ اب محض ایک موسمی تکلیف نہیں رہی، ہم سنتے ہیں کہ یہ آتی ہے اور چلی جاتی ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک قومی ہنگامی صورتحال ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے جنم لے رہی ہے‘۔

وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے بھی کانفرسن سے خطاب کیا—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے بھی کانفرسن سے خطاب کیا—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے شہر کو گھونٹ دیتی ہے، ہماری معیشت کو متاثر کرتی ہے اور خاموشی سے ہمارے لوگوں کی صحت چھین لیتی ہے، یہ بحران وقتی اقدامات سے آگے بڑھنے کا تقاضا کرتا ہے‘۔

الیکٹرک گاڑیوں کو مزید صارف دوست بنانا ہوگا، علی زیدی

نیکس جن آٹوز کی او موڈا اور جے ایکو برانڈز کے جنرل منیجر برائے مارکیٹنگ و برانڈز علی زیدی نے برقی گاڑیوں (ای وی) کو صارفین کے لیے مزید صارف دوست بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

نیکسجن آٹوز کی او موڈا اور جے ایکو برانڈز کے جنرل منیجر برائے مارکیٹنگ و برانڈز علی زیدی نے برقی گاڑیوں کو صارف دوست بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
نیکسجن آٹوز کی او موڈا اور جے ایکو برانڈز کے جنرل منیجر برائے مارکیٹنگ و برانڈز علی زیدی نے برقی گاڑیوں کو صارف دوست بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔—فوٹو: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار

انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں سے پیدا ہونے والا دھواں کراچی میں 33 فیصد اور لاہور میں 35 فیصد آلودگی کا سبب بنتا ہے، ’یہ ایک بہت بڑا حصہ ہے، اس لیے سوال یہ نہیں کہ ہم اگلے 5 سال میں ای وی کو قابلِ عمل بنا سکیں گے یا نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایسا کرنا ہی ہوگا‘۔

انہوں نے زور دیا کہ یہ اقدام پائیدار ہونا چاہیے، ’اگر یہ پائیدار نہیں ہوگا تو خود کو برقرار نہیں رکھ سکے گا، اس لیے اس کا کاروباری جواز ہونا لازمی ہے‘۔

کسان فصلیں جلانے کے مسئلے میں ولن نہیں، کاظم سعید

پاکستان ایگریکلچر کولیشن کے سی ای او کاظم ایم سعید سے جب فصلوں کی باقیات کو جلانے کے مسئلے کے قابلِ عمل حل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’کسان اس معاملے میں ولن نہیں ہیں، شاید کہانی کے اینٹی ہیرو ہوں‘۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انفرادی مفادات اور عوامی مفاد کو ہم آہنگ کرنا ضروری ہے، کاظم ایم سعید نے بتایا کہ بھوسہ جلانے کا مسئلہ صرف سردیوں میں پیدا ہوتا ہے اور یہ بھی نشاندہی کی کہ 40 سے 45 سال پہلے یہ مسئلہ موجود نہیں تھا، کیونکہ اس وقت بڑی سطح پر صرف گندم کی فصل کاٹی جاتی تھی اور چاول کی کٹائی ہاتھ سے کی جاتی تھی۔


سیشن نمبر 3: پاکستان میں صاف ہوا کے لیے مالی اعانت


ورلڈ بینک کے سینئر ماہر ماحولیات شفیق حسین نے ’پاکستان کے لیے صاف ہوا کی مالی معاونت‘ کے عنوان سے سیشن کے آغاز میں ایک پریزنٹیشن پیش کی۔

ماحولیات کے وکیل رافع عالم اور بینک آف پنجاب کے ارسلان محمد اقبال پینل ڈسکشن کے دوران اسٹیج پر موجود ہیں۔ — فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
ماحولیات کے وکیل رافع عالم اور بینک آف پنجاب کے ارسلان محمد اقبال پینل ڈسکشن کے دوران اسٹیج پر موجود ہیں۔ — فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

انہوں نے بتایا کہ دنیا کی 99 فیصد آبادی ایسی ہوا میں سانس لیتی ہے جو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیار پر پوری نہیں اترتی، ان کا کہنا تھا کہ عالمی ترقیاتی فنڈز میں سے صرف ایک فیصد رقم فضائی آلودگی کے مسئلے کے حل کے لیے فراہم کی جاتی ہے۔

ڈان کے ہفت روزہ ’بزنس اینڈ فنانس‘ کی ایڈیٹر فاطمہ عطر والا نے سیشن کی نظامت کی، اپنے ابتدائی کلمات میں انہوں نے کہا کہ گفتگو کا محور یہ ہوگا کہ فضائی آلودگی کو پاکستان کے لیے کس طرح مفید بنایا جا سکتا ہے۔

ماحولیاتی وکیل رافع عالم نے کہا کہ اگرچہ لوگ صاف ماحول چاہتے ہیں، لیکن اس حوالے سے ان کی دلچسپیاں زیادہ تر سطحی اور ظاہری نوعیت کی ہوتی ہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یوں سمجھیں کہ آپ کو پالیسی دستاویز کے سیاہ و سفید الفاظ کو حقیقت میں بدل کر باہر کی ہوا کے معیار میں بہتری لانی ہے، اس کے لیے درست اور وسیع ڈیٹا درکار ہے، جس کے بغیر یہ ممکن نہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماحول میں بہتری راتوں رات نہیں آتی، بلکہ اس کے اثرات ظاہر ہونے میں وقت لگتا ہے۔

ماہر ماحولیات رافع عالم پینل ڈسکشن میں اظہار خیال کررہے ہیں۔ — فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
ماہر ماحولیات رافع عالم پینل ڈسکشن میں اظہار خیال کررہے ہیں۔ — فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

بینک آف پنجاب کے ارسلان محمد اقبال نے کہا کہ سب سے پہلے صارف کی جانب سے ’تقاضا‘کرنا ضروری ہے تاکہ سبز منصوبوں کے لیے مالی معاونت ممکن ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ’فنڈنگ موجود ہے‘ اور اس حوالے سے گرین سکوک بانڈز کی مثال دی۔

ان کا کہنا تھا کہ بینک آف پنجاب واحد پاکستانی بینک ہے جسے فرانس میں قائم ایک کثیرالجہتی ادارے سے 5 کروڑ یورو کی قرض سہولت حاصل ہوئی ہے، جو سبز توانائی منصوبوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔

جب ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل سے دوچار دیگر ممالک کے بارے میں پوچھا گیا تو ماحولیاتی ماہر رافع عالم نے تسلیم کیا کہ وہ ’امیر سفید فام ممالک‘ ہیں، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان ممالک نے ان مسائل پر قابو پانے کے لیے اقدامات کب اور کیسے شروع کیے۔

رافع عالم نے بتایا کہ اسٹاک ہوم میں گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی بہت زیادہ تھی، دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں فضائی آلودگی کے سنگین مسائل تھے، اور 1970 کی دہائی میں کیلیفورنیا میں بھی یہی صورتحال تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’ان تمام ممالک میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے قوانین بنائے گئے‘، اور اس بات پر زور دیا کہ ’یہ قوانین بھی کسی عملی اقدام کے نتیجے میں ہی سامنے آئے تھے‘۔

موسمیاتی بحران ہر سال پاکستان کی جی ڈی پی کو 6 فیصد متاثر کررہا ہے، ظفر مسعود

بینک آف پنجاب کے چیئرمین ظفر مسعود نے سیشن کے اختتامی کلمات میں اسے ایک ’انقلابی ایجنڈا‘ قرار دیا، انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی بحران کے باعث پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد ہر سال متاثر ہو رہا ہے۔

بینک آف پنجاب کے چیئرمین ظفر مسعود نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ — فوٹو: وائٹ اسٹار مرتضیٰ علی
بینک آف پنجاب کے چیئرمین ظفر مسعود نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ — فوٹو: وائٹ اسٹار مرتضیٰ علی

انہوں نے کہا کہ ’آلودہ فضا‘ کا مطلب ہے کہ ادائیگیوں میں کمی، برآمدات کمزور اور نادہندہ قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے حالیہ سیلابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ سب اس نقصان کے علاوہ ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں، مجموعی طور پر اس کا اثر بہت بڑا ہے‘۔

ظفر مسعود نے کہا کہ یہ کانفرنس صرف آگاہی پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ منظم مالیاتی ڈھانچے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے عملی پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے ہے۔

پاکستان کی کلائمیٹ فنانسنگ کو درپیشن چیلنجز

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے ماحولیاتی فنانسنگ کے خلا کا تخمینہ 2030 تک تقریباً 348 ارب ڈالر ہے، جبکہ سیلابوں کے اثرات مزید 100 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ یہ نہیں کہ دنیا میں سرمایہ دستیاب نہیں، اصل چیلنج یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے منصوبے کم ہیں جو اس سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کر سکیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’دنیا کو سرمائے کی کمی نہیں، بلکہ پاکستان کی تیاری پر اعتماد کی کمی ہے‘۔

’وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی وقت کی ضرورت قرار‘

بینک آف پنجاب کے چیئرمین نے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہم آہنگی کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’منصوبے تو صوبوں میں موجود ہیں لیکن فنڈ اکٹھا کرنے کی ساری کوشش وفاقی سطح پر کی جا رہی ہے، اور ہم آہنگی یہی فقدان منصوبوں کی مالی معاونت میں رکاوٹ بن رہا ہے‘۔


سیشن نمبر 2: سرسبز پنجاب کے لیے فضائی آلودگی سے مقابلہ


بریتھ پاکستان کے تحت کانفرنس میں سیشن 2: بعنوان ’سبز تر پنجاب برائے فضائی آلودگی کا مقابلہ‘ کا آغاز محکمہ تحفظِ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی پنجاب کی سیکریٹری سلوت سعید نے کیا۔

سیکریٹری محکمہ تحفظ موحولیات و موسمیاتی تبدیلی پنجاب سلوت سعید کانفرنس سے خطاب کر رہی ہیں—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
سیکریٹری محکمہ تحفظ موحولیات و موسمیاتی تبدیلی پنجاب سلوت سعید کانفرنس سے خطاب کر رہی ہیں—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

انہوں نے ڈان میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ڈان میڈیا نے ہمارے محکمے کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے، تاکہ ہم اس بارے میں بات کر سکیں کہ صوبائی سطح پر ماحولیاتی حکمرانی کو کس طرح تبدیل کیا جا رہا ہے۔

پاکستان ’جغرافیائی پھندے‘ میں واقع

سیکریٹری محکمہ تحفظِ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی پنجاب سلوت سعید نے کہا کہ شہری آبادی میں اضافے نے اسموگ کے ’بڑے عذاب‘ کو جنم دیا ہے، جو دراصل بگڑتے ہوئے فضائی معیار کی علامت ہے، اور یہ مسئلہ درجہ حرارت میں تبدیلی کے باعث مزید نمایاں ہو جاتا ہے۔

پنجاب کی ماحولیاتی عہدیدار نے مزید نشاندہی کی کہ پاکستان ایک ’جغرافیائی پھندے‘ میں واقع ہے، جو اس کی ماحولیاتی آلودگی کے مسائل میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔

پنجاب کے ترقیاتی پروگرام کی موسمیاتی ٹیگنگ

پنجاب کے محکمہ ماحولیات کی اعلیٰ اہلکار ڈاکٹر عمران حامد شیخ نے بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ صوبے کے ترقیاتی پروگرام کو ’موسمیاتی ٹیگ‘ کیا گیا ہے۔

انہوں نے سب سے بڑی الاٹمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے کو تقریباً 269 ارب روپے دیے گئے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلی کی تخفیف اور موافقت کے پروگراموں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیگر شعبوں میں 95 ارب روپے آگاہی بڑھانے کے لیے، 65 ارب روپے صلاحیت سازی کے لیے، 62 ارب روپے آبی وسائل کے لیے، 47 ارب روپے جنگلات کے لیے، اور 16 ارب روپے زراعت و مویشی پالنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

سلوت سعید نے نشاندہی کی کہ یہ ایک مختلف شعبہ جات کے مابین ایک مسئلہ ہے اور ’اصل مجرم‘ کوئی ایک ادارہ نہیں، جس کی نشاندہی کر کے اسے درست کیا جا سکے۔

پورے پنجاب میں تحفظ ماحولیات فورس کی تعیناتی

سلوت سعید نے پنجاب حکومت کی جانب سے کیے جانے والے مختلف اقدامات پر بھی روشنی ڈالی، جن میں ماحولیاتی تحفظ فورس کا قیام شامل ہے، جو ان کے بقول صوبے میں پہلی بار تجرباتی طور پر قائم کی گئی ہے۔

پنجاب کے محکمہ ماحولیات کی اعلیٰ اہلکار نے کہا کہ یہ فورس حیران کن نتائج دے رہی ہے، فورس کی ٹیموں کے پاس خصوصی آلات موجود ہیں۔

سلوت سعید نے کہا کہ یہ فورس، جو فی الحال لاہور میں کام کر رہی ہے، اسے پورے پنجاب میں توسیع دی جائے گی، جس کے تحت ابتدائی طور پر 10 صنعتی علاقوں کو ترجیح دی جائے گی، جب کہ اگلے سال یہ سروس پورے صوبے میں فعال ہوگی۔


سیشن نمبر 1: افتتاح: فضائی آلودگی سے نمٹنے کیلئے وفاقی اور صوبائی لائحہ عمل اور گورننس


آلودہ ہوا ہماری قومی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے، احسن اقبال

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ’بریتھ پاکستان‘ مہم کو ’انتہائی بروقت اقدام‘ قرار دے دیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس صرف آلودگی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ قیادت، شراکت داری اور تعاون کے بارے میں ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال  نے ترقی یافتہ ممالک سے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا۔—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے ترقی یافتہ ممالک سے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا۔—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ ’جب ہم کھڑکی سے باہر لاہور کے خوبصورت اور پررونق شہر کو دیکھتے ہیں تو یہ گھٹن زدہ محسوس ہوتا ہے، اس کا دھڑکتا ہوا دل جدوجہد کر رہا ہے اور اس کے پھیپھڑے دم گھٹنے کی حالت میں ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جس ہوا میں ہم سانس لے رہے ہیں وہی ہماری دشمن بن گئی ہے‘۔

’ناقابل انکار حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا‘

احسن اقبال نے اس مسئلے کو ’بقا کی جنگ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ایک کڑی اور ناقابلِ انکار حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا، وہ ہوا جسے ہم سانس لیتے ہیں، وہ ہمیں بیمار کر رہی ہے اور ہماری قومی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کل تک ہماری ہوا صرف خراب نہیں تھی بلکہ ایک زہریلا مرکب بن چکی تھی، ایک عوامی صحت کی ہنگامی صورتحال، لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 400 تک پہنچنا ہماری قوم کے لیے ریڈ الرٹ ہے‘۔

بریتھ پاکستان کے زیراہتمام لاہور میں منعقدہ ’ایئر وی بریتھ‘ کانفرنس کے شرکا نے انہماک سے مقررین کی گفتگو سنی —فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
بریتھ پاکستان کے زیراہتمام لاہور میں منعقدہ ’ایئر وی بریتھ‘ کانفرنس کے شرکا نے انہماک سے مقررین کی گفتگو سنی —فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ ’یہ صرف لاہور کا مسئلہ نہیں ہے، کراچی، فیصل آباد، پشاور سمیت تقریباً ہمارے تمام شہری مراکز آلودگی کا شکار ہیں‘۔

انہوں نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آلودگی کی شدت عام طور پر سردیوں میں بڑھ جاتی ہے، تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’گرمیوں میں بھی اس کی سطح مسلسل بلند رہتی ہے‘۔

’ہم اس جنگ کی صف اول میں ہیں جو ہم نے نہیں چھیڑی‘

وزیر منصوبہ بندی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان وہ بوجھ اٹھا رہا ہے جس میں اس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’صاف ہوا کے لیے جاری اس جدوجہد میں ہر عمل ایک گولی کے مترادف ہے، میں اپنے بین الاقوامی شراکت داروں اور عالمی برادری سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان اس بوجھ کا سامنا کر رہا ہے جو اس نے خود پیدا نہیں کیا، ہم اس جنگ کی پہلی صف میں ہیں جو ہم نے نہیں چھیڑی، اور ہم محدود وسائل کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں‘۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

احسن اقبال نے کہا کہ ’ہم ماحولیاتی مالیاتی وعدوں کی فوری تکمیل اور ان میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں، گلاسگو اور شرم الشیخ میں کیے گئے وعدے اب پاکستان میں عملی شکل اختیار کرنے چاہییں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں جدید ترین سبز ٹیکنالوجی تک ترجیحی بنیادوں پر رسائی درکار ہے‘، انہوں نے آلودگی پھیلانے والے دنیا کے بڑے ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے نیٹ زیرو اہداف کے حصول کے اوقات کار کو تیز کریں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہماری بقا ان کے بورڈ رومز میں سودے بازی کا موضوع نہیں بننی چاہیے‘۔

احسن اقبال کا ترقی یافتہ دنیا سے مزید اقدامات کا مطالبہ

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ایک کے بعد ایک ماحولیاتی کانفرنس (کوپ) میں کیے جانے والے بڑے بڑے اعلانات ہم سب نے سنے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے پریس ریلیزیں اور تصویری مواقع تو بہت دیکھے ہیں، لیکن عمل کہاں ہے؟ یہ بے عملی وہ طوفان بھڑکا رہی ہے جو ہمارے بچوں کو بہا لے جاتی ہے، آپ کی خارج کردہ آلودگی ہمارے پھیپھڑوں میں زہر بن چکی ہے، اب ہم ترقی یافتہ دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مزید اقدامات کرے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’الزام تراشی کا وقت ختم ہو چکا ہے، اب عمل کا وقت ہے، آئیے، اپنی آستینیں چڑھائیں، فضا کو صاف کریں اور کام کا آغاز کریں‘۔

فضائی آلودگی عالمی ہنگامی صورتحال ہے، نمائندہ اقوامِ متحدہ

اقوامِ متحدہ کے پاکستان میں مقیم نمائندہ اور انسانی ہمدردی کے امور کے کوآرڈی نیٹر محمد یحییٰ نے کہا کہ سائنس بالکل واضح ہے. اور یہ اعداد و شمار ہم سب کو ہلا دینے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔

انہوں نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تخمینوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس کمرے میں موجود 99 فیصد افراد، اور پوری انسانیت کا 99 فیصد حصہ، ایسی ہوا میں سانس لیتا ہے جو غیر محفوظ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عدد کو ہمیں عمل پر آمادہ کرنا چاہیے۔ یہ کوئی دور کی بات نہیں، یہ ایک عالمی محاصرہ ہے، ہر سال تقریباً 70 لاکھ لوگ صرف آلودہ ہوا کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو وہ سانس لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہماری زندگیوں کا سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ ہے، اور ایک خاموش وبا ہے۔

ہوا جب زہر بن جائے تو کیا ہوتا ہے؟

اقوامِ متحدہ کے پاکستان میں مقیم نمائندہ اور انسانی ہمدردی کے امور کے کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ نے کہا کہ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، وہ دراصل ہمارا دنیا کے ساتھ سب سے قریبی تعلق ہے، جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی تجریدی تصور نہیں بلکہ خود زندگی کا تانا بانا ہے، وہ مادہ جو ہمارے خلیوں، ہمارے پھیپھڑوں اور ہمارے خوابوں کو توانائی دیتا ہے، لیکن کیا ہوتا ہے جب یہی مادہ ہمارے خلاف ہو جائے؟ جب وہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں، آہستہ آہستہ اثر کرنے والا زہر بن جائے؟

اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے—فوٹو: وائٹ اسٹار
اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے—فوٹو: وائٹ اسٹار

فضائی آلودگی انسانی مسئلہ، درست کرنا ہماری ذمہ داری ہے، مصدق ملک

وفاقی وزیرِ برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک ویڈیو لنک کے ذریعے تقریب سے خطاب کر رہے ہیں، انہوں نے معذرت کی کہ وہ کچھ خاص حالات کی وجہ سے لاہور نہیں پہنچ سکے۔

وزیرِ موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے فضائی آلودگی کو ایک انسانی ساختہ مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اسے درست کرنا ہماری اپنی ذمہ داری ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ ماضی میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، تاہم اب اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کی جا رہی ہے۔

انہوں نے مختلف قوانین اور پالیسیوں کا حوالہ دینے سے گریز کیا، لیکن کہا کہ وفاقی حکومت اور پنجاب موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہترین کام کر رہے ہیں۔

مصدق ملک نے کہا کہ فضائی آلودگی کے باعث بچوں کے پھیپھڑوں کی کارکردگی کا تقریباً 40 فیصد حصہ متاثر ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف اسموگ نہیں ہے، اسے موت کے زاویے سے بھی دیکھیں، اور یہ صرف موت نہیں، اسے محبت کے زاویے سے بھی دیکھیں، جب آپ ان چہروں کو دیکھیں گے جو اس دھند کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، شاید تب ہم ان مسائل کو زیادہ تیزی سے حل کر سکیں۔

پرانی آئل ریفائنریز کو جدید بنانے پر کام جاری

مصدق ملک نے کہا کہ پرانی آئل ریفائنریز کو جدید بنانے کے لیے پالیسی پر کام جاری ہے۔

وزیرِ موسمیاتی تبدیلی نے وزیراعلیٰ مریم نواز کے تحت جاری شاندار اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ 8 ہزار سے 10 ہزار موٹر سائیکلیں تقسیم کی جا چکی ہیں، 500 سے 600 الیکٹرک بسیں سڑکوں پر ہیں یا جلد چلائی جائیں گی، اور اینٹی اسموگ گنز نصب کی گئی ہیں۔

کانفرنس کے شرکا وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک کا خطاب سن رہے ہیں،—فوٹو: وائٹ اسٹار
کانفرنس کے شرکا وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک کا خطاب سن رہے ہیں،—فوٹو: وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ ہم ایندھن کے لیے مزید اعلیٰ معیار لاتے رہیں گے، ہم نے اپنی پرانی ریفائنریوں کو اپ ڈیٹ کرنے کی پالیسی بنائی ہے تاکہ جو تیل صحت کے لیے نقصان دہ ہے، اسے دنیا کے بہترین معیار کے مطابق بنایا جا سکے۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں مراعات بھی دی جائیں گی اور کچھ کمپنیاں اس پالیسی پر کام کر رہی ہیں۔

دنیا کی جی ڈی پی کا 5 فیصد آلودگی کی وجہ سے ضائع

مصدق ملک نے کہا کہ پوری دنیا کے مجموعی جی ڈی پی کا تقریباً 5 فیصد بجٹ، یعنی سالانہ تقریباً 60 کھرب ڈالر آلودگی کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر گفتگو کرنے کے لیے اس سے بہتر جگہ کوئی نہیں ہو سکتی، میں ڈان گروپ کو اس کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

گزشتہ سال کے اسموگ کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور میں آلودگی کا دھبہ اتنا گہرا تھا کہ خلا سے بھی نظر آتا تھا، یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اسموگ ہماری اپنی پیدا کردہ ہے، جس کا حل بھی ہمیں خود ڈھونڈنا ہے۔

چین، شمسی توانائی کے انقلاب کا قائد

مصدق ملک نے کہا کہ چین نے 10 سے 15 سال قبل اسموگ کے مسائل کا مقابلہ کرنے کے بعد شمسی توانائی (سولر) کے انقلاب کی قیادت کی۔

وزیرِ موسمیاتی تبدیلی نے نشاندہی کی کہ 10 سے 15 سال پہلے جب دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں کا ذکر کیا جاتا تھا، تو جنوبی ایشیا کے شہر لاہور اور نئی دہلی اس فہرست میں شامل نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بیجنگ اور شنگھائی کے نام لیے جاتے تھے، اور اب وہ دنیا کی 60 سے 75 فیصد سولر ٹیکنالوجی فراہم کر رہے ہیں، انہوں نے نہ صرف اپنے شہروں کے مسائل حل کیے بلکہ اپنی درپیش مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا بھر میں شمسی توانائی کے انقلاب کی قیادت بھی کی۔

فضائی آلودگی اور اوسط عمر کے درمیان تعلق کا ذکر

وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا کہ آلودگی اور یہ تمام ماحولیاتی خطرات، ہماری کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے یاد کیا کہ ان کے والد اپنے آخری ایام میں کوما میں تھے اور وہ ان کی زندگی کے لیے ’بس ایک دن اور‘ کی دعا کرتے رہے، زندگی کی قدر پر زور دیتے ہوئے مصدق ملک نے کہا کہ لاہور کے تمام شہریوں کی زندگی کے 8 سے 8 سال اسموگ کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم شاید اسموگ یا فضائی آلودگی کے باعث پیدا ہونے والے غم اور اموات کو اپنی زندگی سے وابستہ نہیں کرتے، حالاں کہ تخمینوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ 28 ہزار قبل از وقت اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہیں، اور ایک فرد کی زندگی کے 5 سے 8 سال کم ہو جاتے ہیں۔

پہلے سیشن سے مریم اورنگزیب کا خطاب

پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور اقوامِ متحدہ کے پاکستان میں ریزیڈنٹ اور ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ پہلی نشست سے خطاب کریں گے، اس وقت مریم اورنگزیب خطاب کر رہی ہیں۔

اپنے خطاب کے آغاز میں پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے بہت سے ماہرین، میڈیا کے افراد، پالیسی سازوں اور سول سوسائٹی کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ماحولیاتی لچک اور ماحولیاتی مطابقت کے حوالے سے مشترکہ ذمے داری کی عکاسی کرتا ہے۔

ڈان میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پنجاب کی وزیر نے کہا کہ وہ فروری کی کانفرنس میں شرکت کے وقت تھوڑی شکوک و شبہات میں مبتلا تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگا تھا کہ یہ ایک پائیدار اقدام ثابت ہوگا، اس لیے میں دل سے ناز آفرین، آپ سب اور ڈان گروپ کو مبارکباد دیتی ہوں کہ آپ نے اس اقدام کو برقرار رکھا، کیوں کہ تسلسل ہی ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل سے نمٹنے کی کلید ہے۔

—فوٹو: وائٹ اسٹار
—فوٹو: وائٹ اسٹار

انہوں نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ دیگر میڈیا اداروں کو بھی اس اقدام کا حصہ بنایا جائے، میں وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ایک کیس اسٹڈی پیش کرنا چاہتی ہوں۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ لاہور، جو پاکستان کا ثقافتی ورثہ اور دل ہے، موسمی اسموگ کے مسئلے سے دوچار ہے، یہ سال بھر جاری رہنے والا مسئلہ ہے، لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں فضائی معیار (اے کیو آئی) کے اعداد و شمار تسلی بخش نہیں تھے، لہٰذا ہم نے اسموگ میں کمی کے لیے اہداف پر کام شروع کیا۔

سینئر صوبائی وزیر نے بتایا کہ جب انہوں نے مارچ میں ایک اجلاس بلایا تو حکومت حیران رہ گئی کہ ہم اس مسئلے پر مارچ میں بات کر رہے ہیں، کیوں کہ فضائی آلودگی کا یہ مسئلہ سال بھر رہتا ہے، ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو کثیرالجہتی نقطۂ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔

مریم نواز کی قیادت میں اسموگ میں کمی کا منصوبہ

پنجاب کی سینئر وزیر نے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں شروع کیے گئے اسموگ میں کمی کے منصوبے کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب میں پنجاب کی مداخلتوں کے بارے میں بات کرتی ہوں تو ہم نے پورا قانونی فریم ورک مکمل کر لیا ہے، اب ہم ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کی سطح کی پیش گوئی کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی ماڈلنگ کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسموگ میں کمی کے لیے مقامی حکمتِ عملی اپنانا مداخلت کا ایک اہم حصہ تھا، اس لیے ہم نے اسموگ میں کمی کے لیے کثیر شعبہ جاتی نقطہ نظر اختیار کیا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (یو این ای پی) کے ریجنل ڈائریکٹر برائے ایشیا پیسیفک ابان مارکر کبراجی اور دیگر مہمان تبادلہ خیال کرتے ہوئے—فوٹو: وائٹ اسٹار
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (یو این ای پی) کے ریجنل ڈائریکٹر برائے ایشیا پیسیفک ابان مارکر کبراجی اور دیگر مہمان تبادلہ خیال کرتے ہوئے—فوٹو: وائٹ اسٹار

انہوں نے بتایا کہ 2 ماہ قبل درآمد کی گئی اسموگ گنز لاہور میں تعینات کر دی گئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ درست پیش گوئی کے لیے ہمارے پاس پنجاب بھر میں 41 ایئر مانیٹرز ہیں، اور 2026 تک یہ تعداد 100 تک پہنچا دی جائے گی۔

پنجاب حکومت کے اسموگ میں کمی کے اقدامات

مریم اورنگزیب نے پنجاب حکومت کی جانب سے اسموگ پر قابو پانے کے لیے کیے گئے اقدامات کی فہرست بیان کی۔

انہوں نے زور دیا کہ پنجاب کے پاس اب ایک جدید ماحولیات فورس موجود ہے، صوبائی حکومت کے اقدامات گنواتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک سبسڈی پروگرام شروع کیا گیا ہے جس میں 80 فیصد رقم حکومت ادا کر رہی ہے، اور لاہور ڈویژن میں اب 5 ہزار سپرسیڈر موجود ہیں۔

سیکریٹری پنجاب ایمرجنسی سروسز ڈاکٹر رضوان کانفرنس میں شریک مہمان سے بات کرتے ہوئے —فوٹو: وائٹ اسٹار
سیکریٹری پنجاب ایمرجنسی سروسز ڈاکٹر رضوان کانفرنس میں شریک مہمان سے بات کرتے ہوئے —فوٹو: وائٹ اسٹار

ان کا کہنا تھا کہ فصلوں کی باقیات جلانے والے علاقوں کا نقشہ تیار کیا گیا، زراعت کی مشینی کاری میں سرمایہ کاری کی گئی، اور صنعتی یونٹس کی نگرانی کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔

سینئر صوبائی وزیر نے کہا کہ پنجاب بھر میں تقریباً 11 ہزار اینٹوں کے بھٹوں کی نقشہ بندی کی گئی، اور جن کے پاس زِگ زَیگ ٹیکنالوجی نہیں تھی، انہیں بند کر دیا گیا۔

پنجاب کا کلائمیٹ چینج وژن 2025

مریم اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ پنجاب کا ’کلائمیٹ چینج وژن 2025‘ اگلے 10 سال کے لیے پالیسی اور عملی منصوبہ بیان کرتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پنجاب حکومت نے پہلی بار گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفیکیٹس متعارف کرائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیف سٹی کیمروں کے ذریعے گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی نشاندہی کر رہے ہیں، ہمارے پاس پنجاب کلین ایئر پروگرام ہے، جس میں پرانی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے لیے بائی بیک پالیسی بھی شامل ہے۔

سینئر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ پہلی بار ہمارے پاس موبائل فیول ٹیسٹنگ لیبز ہیں، ای پی اے پنجاب نے پیٹرول اسٹیشنز پر پیٹرول کے معیار کو جانچنے کے لیے فیول ٹیسٹنگ شروع کر دی ہے، پچھلے 8 مہینوں میں پنجاب میں ایک ہزار 100 الیکٹرک بسیں پہنچ چکی ہیں۔

انڈس ہسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک کی ڈاکٹر صائمہ سعید، ڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر لیو دوپینگ اور یو این کو آرڈینیٹر محمد یحییٰ کانفرنس میں شریک ہیں—فوٹو: وائٹ اسٹار
انڈس ہسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک کی ڈاکٹر صائمہ سعید، ڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر لیو دوپینگ اور یو این کو آرڈینیٹر محمد یحییٰ کانفرنس میں شریک ہیں—فوٹو: وائٹ اسٹار

پنجاب کے اسکولوں میں 30 اکتوبر سے لازمی ری سائیکلنگ بینز

پنجاب کی سینئر وزیر نے جاپان کے اپنے حالیہ دورے پر بھی روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ جاپان میں پورا ویسٹ مینجمنٹ نظام الگ الگ کوڑا کرکٹ جمع کرنے پر مبنی ہے، اس لیے وہ ٹیکنالوجی پاکستان نہیں لائی جا سکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب ہم اس ٹیکنالوجی اور ویسٹ انسی نیریٹرز کے لیے چین جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ منصوبہ اسکولوں میں شروع کیا ہے، کیوں کہ ہمیں لگا کہ اسکول اس کے آغاز کے لیے بہترین جگہ ہیں، تاکہ اسے نصاب میں بھی شامل کیا جا سکے، 30 اکتوبر کے بعد اسکولوں میں 5 ری سائیکلنگ بینز رکھنا لازمی ہوگا۔

پاکستان، خاص طور پر لاہور میں فضائی آلودگی ایک سنگین ماحولیاتی اور عوامی صحت کا بحران بن چکی ہے۔

’سرحد پار آلودگی کا رجحان‘

مریم اورنگزیب نے فضائی آلودگی سے متعلق ڈیٹا کی کمی پر بھی اظہارِ خیال کیا اور ’سرحد پار آلودگی‘ کے رجحان کو اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا کہ لاہور اور ملتان میں بلند ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کی بڑی موسمی وجہ وہ مشرقی ہوائیں ہیں، جو بھارت کی جانب سے آتی ہیں، یہ ہوا کا رخ موسمی اے کیو آئی سطحوں میں بڑا کردار ادا کرتا ہے اور ایک اہم وجہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک سرحد پار انتظام شروع کیا تھا لیکن حالیہ واقعات کے باعث اب ہم اسے اقوام متحدہ یا عالمی بینک کے ساتھ آگے بڑھا سکتے ہیں۔

مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ ’بریتھ پاکستان‘ ایک بہترین مہم ہے جو ماحولیاتی آگاہی پھیلا رہی ہے، یہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے، اور ہم جو بھی انتخاب کرتے ہیں اس کے ماحولیاتی اور موسمیاتی اثرات ہوتے ہیں۔

ناز آفرین سہگل لاکھانی کا صاف فضا کے عزم پر زور

تقریب کا افتتاح کرتے ہوئے پاکستان ہیرالڈ پبلیکیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ (پی ایچ پی ایل) کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ناز آفرین سہگل لاکھانی نے کہا کہ ’ڈان میڈیا کی جانب سے آپ سب کو ’بریتھ پاکستان: دی ایئر وی بریتھ‘ میں خوش آمدید کہنا میرے لیے اعزاز اور ذمہ داری دونوں ہے، یہ ایک نہایت اہم اجتماع ہے جو ایک انتہائی فوری مسئلے، یعنی فضائی آلودگی، پر مرکوز ہے۔

کانفرنس کے شرکا قومی ترانہ سن رہے ہیں—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
کانفرنس کے شرکا قومی ترانہ سن رہے ہیں—فوٹو: مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

اس اقدام کے آغاز کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ماحولیاتی تبدیلی پر ایک قومی مکالمہ شروع کرنا تھا، پہلی کانفرنس میں ماہرین نے مل کر ایک ماحولیاتی لحاظ سے مضبوط پاکستان کے لیے چارٹر جاری کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج، ‘دی ایئر وی بریتھ’ اسی تسلسل پر آگے بڑھ رہا ہے، جیسے ہی ہم ایک اور اسموگ سیزن میں داخل ہو رہے ہیں، یہ کانفرنس فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے عملی اور قابلِ عمل اقدامات پر توجہ دے رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم تعاون کے ایک زندہ اور مربوط نیٹ ورک کو فروغ دینے میں مدد کر رہے ہیں، تاکہ مشترکہ وعدوں کو یقینی بنایا جا سکے، مجھے امید ہے کہ آج کی گفتگو اجتماعی عمل کو اُبھارے گی اور ایک مضبوط پیغام دے گی کہ عوام کی صحت اور پاکستان کا مستقبل صرف پالیسی کے نکات نہیں بلکہ ہماری ترجیحات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئیے ہم سب صاف فضاؤں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک صحت مند ماحول کے عزم کا اعادہ کریں۔

فضائی آلودگی کا مسئلہ

کبھی باغوں کے شہر کے طور پر مشہور لاہور اب دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شمار ہوتا ہے، جہاں PM2.5 کی سطح عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی مقرر کردہ محفوظ حد سے کہیں زیادہ ہے۔

کراچی، فیصل آباد اور پشاور جیسے بڑے شہر بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جن کی بڑی وجوہات صنعتی اخراج، گاڑیوں کا دھواں، فصلوں کی باقیات جلانا، اور ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کی کمی ہیں۔

یہ کانفرنس اقوام متحدہ اور حکومتِ پنجاب کے تعاون سے منعقد کی جا رہی ہے، پاکستان بزنس کونسل نالج پارٹنر کے طور پر شامل ہے، جب کہ اپسوس، کلائمیٹ فارورڈ پاکستان ) اور کاربن ٹریک) تحقیقاتی شراکت دار ہوں گے۔

اس کانفرنس کا مقصد قابلِ عمل حل پیش کرنا، اعلیٰ سطح کے مکالمے کو فروغ دینا، اور پاکستان میں صاف ہوا کے لیے اجتماعی اقدامات کو آگے بڑھانا ہے۔

اجلاسوں میں مختلف موضوعات زیرِ بحث آئیں گے، جن میں حکومتی پالیسی فریم ورک، صاف ہوا کے لیے مالی معاونت، اسموگ اور صنعتی ذمہ داری، عدالتی سرگرمی، عوامی صحت پر اثرات، قومی سطح پر فضائی معیار کے معیار، اور سرحد پار آلودگی پر علاقائی تعاون شامل ہیں۔

آج کے اجلاس میں جن نمایاں شخصیات کے خطاب کی توقع ہے، ان میں وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر مصدق ملک، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب، دیگر وفاقی و صوبائی وزرا، سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک، اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے سینئر عہدیداران، عالمی صحت کے ماہرین، ماہرِ اقتصادیات، اور کارپوریٹ رہنما بھی اس اہم مسئلے پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔

یہ اقدام کئی معروف تجارتی اداروں اور عوامی و نجی تنظیموں کی حمایت سے ممکن ہوا ہے، جن میں انگلش بسکٹ مینوفیکچررز، بینک آف پنجاب، محکمہ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی پنجاب، او موڈا و جیکو، نشاط گروپ، اور این ڈی ایم آر ایف شامل ہیں۔

ڈان میڈیا کے مطابق یہ شراکت داری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مختلف شعبے پاکستان میں تیزی سے بڑھتی فضائی آلودگی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط اور پھیلتا ہوا اتحاد تشکیل دے رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025