پاک-بھارت لفظی جنگ جاری، ’ہمیں ہر صورت حال کے لیے تیار رہنا ہوگا‘
نئی دہلی کی جانب سے متعصبانہ بیانات کے بعد سے گزشتہ ہفتے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان لفظوں کی جنگ چھڑ چکی ہے۔
مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان 4 روزہ تصادم کے بعد سے، بھارتی حکام کی دھمکیاں اور جارحانہ بیانات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں، بھارت کے سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے بیانات زیادہ خطرناک اور تشویشناک ہوتے جارہے ہیں جن سے پہلے سے ہی کشیدہ حالات میں مزید تناؤ پیدا کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے بھارتی حکام کے تین اشتعال انگیز بیانات دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بنے۔ سب سے خطرناک بیان بھارتی آرمی چیف اپیندر دویدی کا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان نے سرحد پار دہشت گردی کا سلسلہ نہ روکا تو اسے دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس بار بھارت وہ ’تحمل‘ نہیں دکھائے گا جس کا مظاہرہ اس نے ‘آپریشن سندور’ کے دوران کیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت ’ضرورت پڑنے پر کسی بھی سرحد کو عبور کر سکتا ہے‘۔ انہوں نے اپنی فوج کو چوکس رہنے کا حکم دیا اور کہا کہ ’موقع جلد آ سکتا ہے‘۔
اس کے بعد بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ سر کریک کے علاقے میں اپنی فوجی تنصیبات میں اضافہ کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان نے یہاں کوئی کارروائی کرنے کی جرأت کی تو ’ایسا سخت جواب دیا جائے گا کہ تاریخ اور جغرافیہ دونوں بدل جائیں گے‘۔
سر کریک، رن آف کَچھ کے علاقے میں واقع 96 کلومیٹر طویل ایک دلدلی ندی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان متنازع حیثیت رکھتی ہے۔ یہ علاقہ کئی بار سمندری سرحدی حدود کے تعین میں مذاکرات کا موضوع رہا ہے جبکہ اس سلسلے میں دونوں ممالک کی آخری نشست 2012ء میں ہوئی تھی مگر کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل پایا تھا۔
5 اکتوبر کو بھارت کے ایئر فورس چیف امر پریت سنگھ نے یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ مئی کی جھڑپ کے دوران بھارت نے 9 سے 10 پاکستانی لڑاکا طیارے مار گرائے تھے جن میں دو ایف-16 طیارے بھی شامل تھے۔ انہوں نے ایک بار پھر یہ دھمکی دی کہ بھارتی فضائیہ کو ’دہشتگردوں کے کسی بھی ٹھکانے پر پاکستان میں گہرائی تک حملہ کرنے کی مکمل صلاحیت حاصل ہے اور بالکل درست نشانے پر‘ وہ کسی بھی وقت کارروائی کر سکتی ہے۔
پاکستان نے ان بیانات پر بھرپور ردِعمل دیا۔ فوجی افسران کا ایک اجلاس جس کی صدارت آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کی، کے بعد ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اگر بھارتی قیادت کوئی ’نیا معمول‘ بنانے کی کوشش کرتی ہے تو پاکستان اس کا ’فوری اور مؤثر جواب‘ دے گا۔
اس سے قبل، پاک فوج کے میڈیا ونگ نے بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ ترین عہدیداران کے ’فریب، اشتعال انگیز اور جنگی زبان‘ پر مبنی بیانات کی مذمت کی اور انہیں ’جارحیت کا بہانہ بنانے کی ایک نئی کوشش‘ قرار دیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان میں خبردار کیا گیا کہ مستقبل میں کوئی بھی تنازع ’شدید تباہی‘ کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ پاکستان بلا روک ٹوک بھرپور جواب دے گا۔ بھارتی آرمی چیف کی دھمکی پر کہا گیا کہ ’نقشے سے مٹانے‘ کی بات کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ’مٹانے کا عمل یک طرفہ نہیں ہوگا‘۔
بھارت کی جانب سے حالیہ دھمکیوں اور اشتعال انگیز بیان بازی سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ بھارت اس وقت ایسا رویہ کیوں اختیار کر رہا ہے اور کیا اس کے بیانات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے؟
ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ یہ جارحانہ بیانیہ بھارت کے اندرونی سیاسی مقاصد کے لیے ہے خاص طور پر حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہندو ووٹرز کے لیے ایسے بیانات دے رہی ہے۔ بی جے پی کے لیے انتخابات سے قبل پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکانا ایک پرانا حربہ بن چکا ہے۔
چونکہ بہار میں اہم ریاستی انتخابات قریب ہیں اور مغربی بنگال میں بھی اگلے سال انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے جبکہ مئی کی جھڑپوں کے بعد حکومت کو اپوزیشن کی تنقید کا سامنا ہے، ایسے میں نریندر مودی کی حکومت اپنی کمزور پڑتی پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ شاید بھارت کے حالیہ رویے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن صرف یہی ایک وجہ نہیں۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ اب بھی مئی کی جھڑپ میں پاکستان کی فیصلہ کن برتری کو ہضم نہیں کر پائی ہے خاص طور پر کہ جب اس جھڑپ میں کئی بھارتی جنگی طیارے مار گرائے گئے تھے۔ اس لیے ایسی بیان بازی شاید ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ لیکن بات صرف اتنی نہیں، اس کے پیچھے کچھ اور بھی محرکات ہیں۔
مئی کی جھڑپ میں بھارت کو جس طرح کی اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا، وہ اس کی عزتِ نفس کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا اور اب وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے بے چین نظر آتا ہے۔
اس تناظر میں اور جس طرح بھارتی رہنما بار بار پاکستان کے ساتھ ایک اور ’مرحلے‘ کی بات کرتے ہیں تو کسی بھارتی دراندازی یا جارحانہ کارروائی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر جب بھارتی قیادت اصرار کرتی رہی ہے کہ اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے اصول اور جنگی محاذ ہمیشہ کے لیے بدل چکے ہیں۔
پاکستانی حکام اس امکان کو نظرانداز نہیں کررہے لیکن ان کا خیال ہے کہ بھارت کو نئی جنگی مہم جوئی سے روکنے والے کچھ عوامل موجود ہیں جن میں پاکستان کی جانب سے سخت جوابی کارروائی کے واضح انتباہات اہم ہیں جبکہ خطے کے ساتھ ساتھ عالمی منظرنامے میں آنے والی تبدیلیاں بھی اہم ہیں جو بھارت کو ایسا قدم اٹھانے سے روک سکتی ہیں۔
یقینی طور پر موجودہ عالمی حالات بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی فوجی کارروائی کی کھلی اجازت نہیں دیتے۔ اسلام آباد کے امریکا سے مستحکم ہوتے تعلقات، بھارت کے واشنگٹن کے ساتھ کشیدہ روابط، چین کی پاکستان کو غیر متزلزل سفارتی و عسکری حمایت اور پاکستان-سعودیہ اسٹریٹجک دفاعی معاہدے نے خطے کی جغرافیائی سیاسی صورت حال کو بھارت کے لیے منفی رخ دیا ہے۔
اگر مئی میں بھارت کو پاکستان پر حملوں کے لیے عالمی حمایت نہیں ملی تھی تو بدلے ہوئے موجودہ عالمی ماحول میں اس کے لیے ایسی حمایت حاصل کرنا اور بھی مشکل ہوگا۔
تاہم ایک مخالف نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ بھارت اس بدلے ہوئے عالمی ماحول میں ’طاقت کے استعمال‘ (جو اب اس کے لیے ایک ’نیا معمول بنتا جا رہا ہے) کو آزمانا چاہتا ہے کیونکہ دنیا میں اب اسے پہلے کی نسبت زیادہ ’قابلِ قبول‘ سمجھا جا رہا ہے۔
پاکستان کسی صورت بھی معاملات کو حالات پر چھوڑنے کا متحمل نہیں اور نہ ہی وہ اپنی حفاظت میں کوئی کمی کر سکتا ہے۔ کوئی بھی امر جیسے صدر ٹرمپ کے غزہ ‘امن منصوبے’ کے تحت مشرق وسطیٰ میں فوجی مشن، مشرقی سرحد پر پاکستان کی توجہ ہٹانے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ ملک کو اپنی سلامتی کو ترجیح دینی چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ اپنے فوجی وسائل کہیں اور تعینات کرے کیونکہ ایسا کرنے سے پاکستان کو دیگر خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
سرکاری بھارت کو بیان بازی کے علاوہ، بھارتی میڈیا میں خارجہ پالیسی کے ماہرین اور سابق سفارت کاروں کی رائے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ بھارت کی بین الاقوامی تنہائی اور پاکستان کے مقابلے میں اس کی سفارتی برتری پر گہری تشویش ظاہر کررہے ہیں۔
انڈیا ٹوڈے کے ایک تجزیے کے مطابق پاکستان ’اپنی اسٹریٹجک حکمت عملی کو ازسرِ نو ترتیب دے رہا ہے‘، نئے اتحاد بنا رہا ہے اور ایک ایسا نیا توازن قائم کر رہا ہے جو خطے کے بدلتے ہوئے حالات کا عکاس ہے۔ اس کے بھارت پر اہم اثرات مرتب ہوں گے اور یہ بھارت کے عزائم کا امتحان بھی ہوگا۔
کچھ بھارتی ’ٹرمپ کے پاکستان کی جانب جھکاؤ‘ کو لے کر فکر مند ہیں اور اسے بھارت کے خلاف دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کو بطور اتحادی کھونے پر پریشان بعض ماہرین نے بھارت کے خلاف ’دشمن طاقتوں کی صف بندی‘ کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس بار بار کہتی رہی ہے کہ بھارت سفارتی طور پر تنہا ہوچکا ہے، جبکہ وہ حکومت کو بھارت-امریکا تعلقات میں کشیدگی اور عالمی اثر و رسوخ کھونے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔
بھارتی حکومت پر اندرونی دباؤ اسے بغیر سوچے سمجھے اقدامات کرنے پر اُکسا سکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے متوقع غیریقینی نتائج اسے احتیاط سے کام لینے کی بھی تلقین کر سکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ پاکستان کو ہمیشہ چوکس اور ہر ممکن صورت حال کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی