امریکا: 30 میڈیا اداروں نے پینٹاگون کی نئی پالیسی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا
کم از کم 30 میڈیا اداروں نے پینٹاگون کی صحافیوں کے لیے نئی رسائی پالیسی پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام دنیا کی سب سے طاقتور فوج کی جامع کوریج میں کمی کا باعث بن سکتا ہے، یہ فیصلہ گزشتہ روز منگل کی آخری تاریخ سے قبل کیا گیا ہے، جس دن تک انہیں نئی پابندیوں کو قبول کرنا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اس پالیسی کے تحت صحافیوں کو نئے قواعد کو تسلیم کرنا ہوگا، جن میں یہ شق بھی شامل ہے کہ اگر وہ محکمہ دفاع کے اہلکاروں سے خفیہ یا بعض غیر خفیہ معلومات افشا کرنے کی درخواست کریں تو انہیں سیکیورٹی رسک قرار دیا جا سکتا ہے، اور ان کے پینٹاگون پریس بیجز منسوخ کیے جا سکتے ہیں۔
رائٹرز ان اداروں میں شامل ہے، جنہوں نے پریس آزادی پر خطرات کے باعث پالیسی قبول کرنے سے انکار کیا ہے، دیگر تنظیموں میں ایسوسی ایٹڈ پریس، بلومبرگ نیوز، نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل، واشنگٹن پوسٹ، سی این این، فاکس نیوز، سی بی ایس، این بی سی، اے بی سی، این پی آر، ایکسیوس، پولیٹیکو، دی گارجین، دی اٹلانٹک، دی ہل، نیوز میکس، بریکنگ ڈیفنس اور ٹاسک اینڈ پرپز شامل ہیں۔
پینٹاگون کے ترجمان شان پارنیل نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ ’یہ پالیسی ان سے اتفاق کرنے کا نہیں، بلکہ صرف یہ تسلیم کرنے کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ ہماری پالیسی کو سمجھتے ہیں، صحافیوں نے اس پر شدید ردعمل دکھایا ہے، خود کو متاثرہ ظاہر کر رہے ہیں، ہم اپنی پالیسی پر قائم ہیں، کیونکہ یہ ہمارے فوجیوں اور قومی سلامتی کے بہترین مفاد میں ہے‘۔
محکمہ دفاع نے خبردار کیا ہے کہ جن تنظیموں نے منگل تک دستخط نہ کیے وہ اپنے پریس بیجز واپس کریں اور بدھ تک پینٹاگون میں موجود اپنے دفاتر خالی کریں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منگل کو جب اس پالیسی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پینٹاگون کے سربراہ پِیٹ ہیگسیَتھ سمجھتے ہیں کہ پریس، دنیا کے امن اور ممکنہ طور پر قومی سلامتی کے لیے بہت زیادہ خلل ڈالنے والا ہے۔
پیٹ ہیگسیَتھ نے ان تقاضوں کو ’عام فہم بات‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ قومی سلامتی کا احترام ہو۔
نیوز اداروں نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ صحافیوں کی حساس علاقوں تک رسائی محدود ہو، پینٹاگون پریس ایسوسی ایشن کے مطابق تصدیق شدہ رپورٹرز کو پہلے بھی صرف غیر خفیہ علاقوں تک رسائی حاصل تھی۔
5 بڑے نشریاتی نیٹ ورکس نے منگل کو مشترکہ بیان جاری کیا کہ ’آج ہم تقریباً تمام دیگر نیوز اداروں کے ساتھ شامل ہو کر پینٹاگون کے ان نئے تقاضوں سے انکار کرتے ہیں، جو صحافیوں کی صلاحیت کو محدود کر دیں گے کہ وہ قوم اور دنیا کو اہم قومی سلامتی کے معاملات سے آگاہ رکھ سکیں، یہ پالیسی بے مثال ہے اور بنیادی صحافتی آزادیوں کے لیے خطرہ ہے، ہم آزاد اور خودمختار پریس کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے امریکی فوج کی کوریج جاری رکھیں گے‘۔
نیویارک ٹائمز کے واشنگٹن کے لیے بیورو چیف رچرڈ اسٹیونسن نے کہا کہ ’جب سے یہ پالیسی سامنے آئی ہے، ہم نے اپنی تشویش ظاہر کی ہے کہ یہ صحافیوں کی رپورٹنگ کو محدود کرتی ہے، امریکی فوج تقریباً ایک کھرب ڈالر کے عوامی فنڈ سے چلتی ہے اور عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ حکومت اور فوج کیسے کام کر رہے ہیں‘۔
رائٹرز نے بھی نئی شرائط پر اعتراض کیا اور کہا کہ ’رائٹرز اپنی درست، غیر جانبدار اور آزادانہ رپورٹنگ کے عہد پر قائم ہے، ہمیں امریکی آئین کے تحت دیے گئے پریس کے تحفظ، معلومات کے آزاد بہاؤ اور عوامی مفاد میں خوف یا جانبداری کے بغیر صحافت پر یقین ہے، پینٹاگون کی نئی پابندیاں ان بنیادی اقدار کو مجروح کرتی ہیں’۔
ایک وکیل جو پینٹاگون سے مذاکرات میں شامل تھے، انہوں نے کہا کہ یہ قواعد امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت پریس کے تحفظات کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں، کیوں کہ یہ رپورٹرز کی معمول کی کوششوں کو ضابطے میں لاتے ہیں جن کے ذریعے وہ معلومات یا دستاویزات حاصل کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ تقاضا کہ رپورٹر تسلیم کریں کہ حساس معلومات کے انکشاف سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، استغاثہ کو مدد دے سکتا ہے اگر وہ رپورٹر پر اسپائنیج ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانا چاہیں۔
قدامت پسند نیوز چینل ون امریکا نیوز (او اے این) نے نئی پالیسی پر دستخط کر دیے ہیں۔
او اے این کی پیرنٹ کمپنی ہیرنگ نیٹ ورکس کے صدر چارلس ہیرنگ نے کہا کہ ہماری قانونی ٹیم کے مکمل جائزے کے بعد او اے این کے عملے نے اس دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں۔
رائٹرز فوری طور پر یہ معلوم نہیں کر سکا کہ کیا دیگر اداروں نے بھی دستخط کیے ہیں۔
پینٹاگون کی اس پالیسی کا پچھلے مہینے اعلان کیا گیا تھا، وزیر دفاع پیٹ ہیگسیَتھ کے دور میں پریس پر عائد پابندیوں میں تازہ اضافہ ہے، وہ فاکس نیوز کے سابق میزبان رہ چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے محکمہ دفاع کا نام بدل کر محکمہ جنگ رکھنے کا حکم دیا ہے، جس کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہوگی۔
پیر کو اسرائیل اور مصر کے دورے کے دوران پیٹ ہیگسیَتھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اُن میڈیا اداروں کو جو پالیسی پر دستخط کرنے سے انکار کر رہی ہیں، ایک ہاتھ ہلانے والا ایموجی پوسٹ کیا، گویا وہ انہیں الوداع کہہ رہے ہوں۔
پینٹاگون پریس ایسوسی ایشن 100 سے زائد اداروں کی نمائندگی کرتی ہے، اس نے پینٹاگون قیادت سے پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے، اس نے کہا کہ پالیسی ’پینٹاگون کے ملازمین کو خاموش کرتی ہے اور رپورٹرز کے خلاف انتقامی کارروائی کی دھمکی دیتی ہے جو ایسی معلومات تلاش کرتے ہیں جو پہلے سے منظور شدہ نہیں‘۔
ایسوسی ایشن نے اس بارے میں کوئی واضح سفارش جاری نہیں کی کہ رپورٹرز کو پالیسی قبول کرنی چاہیے یا نہیں۔
پینٹاگون نے میڈیا کے ساتھ مذاکرات کے بعد اپنی مجوزہ پالیسی میں کچھ ترمیم کی ہے، اس میں تسلیم کیا گیا کہ حساس معلومات حاصل کرنا یا شائع کرنا ’عمومی طور پر پہلی ترمیم کے تحت محفوظ‘ ہے، لیکن کہا گیا کہ ایسی معلومات کے انکشاف کی درخواست کرنا ’یہ طے کرنے میں اثرانداز ہو سکتا ہے کہ آیا آپ سیکیورٹی یا سیفٹی رسک ہیں یا نہیں‘۔
پالیسی میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پریس کے حقوق مطلق نہیں ہیں اور وہ حکومت کے اس اہم مفاد پر فوقیت نہیں رکھتے، جو حساس معلومات کی رازداری برقرار رکھنے سے متعلق ہے۔












لائیو ٹی وی