مڈغاسکر میں آئینی بحران کے بعد فوج نے ’2 سال کیلئے‘ اقتدار سنبھالنے کا اعلان کر دیا
مشرقی افریقہ کے ملک مڈغاسکر میں بغاوت کی قیادت کرنے والے ایک فوجی کمانڈر نے منگل کے روز اعلان کیا ہے کہ صدر اینڈری راجولینا کے قانون سازوں کے ذریعے مواخذے اور ان کے ملک سے فرار ہونے کے بعد فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یہ پیش رفت نوجوانوں کی قیادت میں ہونے والے کئی ہفتوں کے احتجاج کے بعد سامنے آئی ہے، صدر راجولینا نے اپنی برطرفی کے بڑھتے ہوئے مظاہروں اور فوج میں ہونے والی بغاوتوں کے باوجود استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
کرنل مائیکل رانڈریانیریانا نے قومی ریڈیو پر اعلان کیا کہ ’ہم نے اقتدار سنبھال لیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ فوج ایوان زیریں (قومی اسمبلی) کے سوا تمام اداروں کو تحلیل کر رہی ہے۔
بعد میں رانڈریانیریانا نے صحافیوں کو بتایا کہ فوج کی قیادت میں ایک کمیٹی ملک پر زیادہ سے زیادہ 2 سال کے لیے حکومت کرے گی، اور ایک عبوری حکومت کے ساتھ مل کر نئے انتخابات کا انعقاد کرے گی۔
فوجی رہنماؤں کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ سینیٹ، اعلیٰ آئینی عدالت، آزاد قومی انتخابی کمیشن، اعلیٰ عدالت انصاف، اور انسانی حقوق و قانون کی حکمرانی کے دفاع کی اعلیٰ کونسل کو معطل کیا جاتا ہے۔
بحر ہند کے جنوبی کنارے پر واقع جزائر کے حامل ملک میں ایک ہنگامہ خیز دن کے دوران 51 سالہ راجولینا نے صبح کے وقت ایک فرمان کے ذریعے ایوان زیریں کو تحلیل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن قانون سازوں نے اس کے باوجود ان کا مواخذہ کر دیا، جس سے ایک آئینی بحران پیدا ہو گیا تھا، اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
راجولینا، جو خود 2009 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے، انہوں نے فوجی قبضے کی مذمت کی ہے۔
فوجی اداروں کی معطلی
منگل کے روز مڈغاسکر کے دارالحکومت انتاناناریوو میں کیپسیٹ یونٹ کے فوجی صدارتی محل کے دروازوں پر تعینات تھے۔
یہ وہی ایلیٹ فوجی یونٹ ہے، جس نے 2009 کی بغاوت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
رانڈریانیریانا اسی یونٹ کے کمانڈر ہیں، اور انہوں نے گزشتہ ہفتے راجولینا سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
پیر کی رات اپنے قوم سے خطاب میں راجولینا نے کہا تھا کہ انہیں اپنی جان کو لاحق خطرات کے باعث محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا ہے، حزبِ اختلاف کے ایک رہنما، ایک فوجی ذریعے اور ایک غیر ملکی سفارت کار کے مطابق وہ اتوار کے روز ایک فرانسیسی فوجی طیارے کے ذریعے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔
ان کی سیاسی تنہائی منگل کو مزید بڑھ گئی تھی، جب ان کی اپنی جماعت کے ارکان (جن کی پارلیمان میں اکثریت ہے) نے بھی ان کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
راجولینا نے پچھلے چند دنوں میں کئی بار خبردار کیا تھا کہ ایک فوجی بغاوت کی کوشش جاری ہے۔
بڑھتا ہوا احتجاج
ملک میں 25 ستمبر کو پانی اور بجلی کی قلت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، جو تیزی سے کرپشن، بدانتظامی اور بنیادی سہولیات کی کمی کے خلاف ایک بڑے عوامی احتجاج میں تبدیل ہو گئے تھے۔
یہ غصہ نیپال اور مراکش سمیت کئی ممالک میں نوجوانوں کے زیرِ قیادت احتجاجی تحریکوں سے مشابہت رکھتا تھا۔
منگل کو دارالحکومت انتاناناریوو کے 13 مئی اسکوائر پر ہزاروں مظاہرین ناچتے، نعرے لگاتے، گاتے اور بینرز لہراتے نظر آئے، جن میں راجولینا کو ’فرانسیسی ایجنٹ‘ قرار دیا گیا، کیوں کہ ان کے پاس فرانسیسی شہریت بھی ہے۔
بہت سے مظاہرین ملیگاسی پرچم اور جاپانی اینیمی ’ون پیس‘ کے کھوپڑی اور ہڈیوں والے ’جن زی‘ احتجاجی نشان اٹھائے ہوئے تھے۔
اسی موقع پر رانڈریانیریانا اسٹیج پر آئے اور پوچھا کہ کیا آپ فوجی اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار ہیں؟ جس پر ہجوم نے خوشی کے نعرے لگائے۔
جب فوجی قبضے کی خبر مظاہرین تک پہنچی تو بہت سے خوشی سے جھوم اٹھے۔
تاہم کچھ لوگ محتاط بھی تھے۔
68 سالہ آئی ٹی کنسلٹنٹ، ریزافی لووا نے کہا کہ انہیں جلد از جلد اقتدار سویلین حکومت کے حوالے کرنا چاہیے اور انتخابات کروانے چاہئیں۔
بگڑتی ہوئی معیشت
کیپسیٹ یونٹ نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ مظاہرین پر فائرنگ نہیں کرے گی، اور بعد میں فوج کی کمان سنبھال لی، اس کے بعد اس نے نیا فوجی سربراہ مقرر کیا، جس پر راجولینا نے اتوار کو ’غیر قانونی بغاوت‘ کی تنبیہ کی تھی۔
تب سے نیم فوجی جینڈرمیری اور پولیس بھی راجولینا سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔
مڈغاسکر کی آبادی تقریباً 3 کروڑ ہے، جس میں سے تین چوتھائی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ملک کی اوسط عمر 20 سال سے کم ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق 1960 میں آزادی سے لے کر 2020 تک مڈغاسکر کا فی کس جی ڈی پی 45 فیصد تک گر گیا ہے۔












لائیو ٹی وی