’یہ پہلا موقع نہیں جب نوبیل کمیٹی نے حماقت کا مظاہرہ کیا ہو‘

شائع October 15, 2025

یہ ہرگز حیران کُن نہیں کہ گزشتہ جمعے کو نوبیل امن انعام کے اعلان سے قبل قیاس آرائیاں عروج پر تھیں۔ ان قیاس آرائیوں میں سے زیادہ تر کا محور یہ تھا کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ انعام دیا جائے گا یا نہیں حالانکہ اس دوران اس بات کو کافی حد تک نظر انداز کر دیا گیا کہ اس انعام کے لیے نامزدگیوں کا عمل جنوری کے مہینے میں ہی ختم ہو جاتا ہے۔

لہٰذا امریکی صدر کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے 8 جنگیں روکی ہیں، کسی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ ہاں یہ دعوے اگلے سال شاید ان کے کچھ کام آسکیں۔

حالیہ دنوں میں نوبیل امن انعام کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار پھر نامزد کیا گیا جوکہ بنیامین نیتن یاہو نے یروشلم کی کنیسٹ میں اپنے خطاب میں کیا جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی شرم الشیخ میں ہونے والی نام نہاد امن کانفرنس کے دوران ٹرمپ کی توثیق کی حالانکہ مصر میں یہ امن کانفرنس ایک بے معنی اجلاس تھا جہاں 20 سے زائد خوشامدی رہنما ایک چھت تلے جمع ہوئے تاکہ وہ بادشاہ کی تعریفوں کے پُل باندھ سکیں۔

شہباز شریف نے عقلِ عام اور عالمی رائے عامہ دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کو بتایا کہ ’آپ وہ شخصیت ہیں جس کی اس وقت دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے‘۔ امریکی صدر کا جواب بھی اسی طرح مبالغہ آمیز تھا، ’واہ! مجھے یہ توقع نہیں تھی۔ چلیے گھر چلتے ہیں، میرے پاس کہنے کو اب کچھ نہیں۔۔۔ یہ واقعی بہت خوبصورت تقریر تھی اور اسے خوبصورتی سے پیش کیا گیا‘۔

اس سے پہلے ٹرمپ اپنی تقریر میں جنرل عاصم منیر کو ’اپنا پسندیدہ فیلڈ مارشل‘ قرار دے چکے تھے۔ پاکستانی ریاست یقیناً امریکی صدر کی اس ’منظوری‘ پر خوش ہوگی اور شاید امریکی وعدہ خلافیوں کی تاریخ کو بھلا بیٹھی ہے جو 1950ء کی دہائی میں واشنگٹن کو نجات دہندہ سمجھ کر گلے لگانے کے بعد سے بار بار دہرائی گئی ہیں۔

غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے قتل عام کو کم از کم عارضی طور پر روکنے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کے حوالے سے کی جانے والی تعریفیں، اُن مبہم پہلوؤں پر پردہ ڈال دیتی ہیں جو اُن کے نام نہاد امن منصوبے کا حصہ ہیں۔

یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں فلسطینی حقِ خودارادیت کے تصور کی کوئی گنجائش نہیں جبکہ ‘ٹرمپ اقتصادی منصوبہ’ اس چھوٹے سے علاقے کے لیے خطرہ ہے جس کا نصف سے زائد حصہ اب بھی اسرائیلی قبضے میں ہے۔ غزہ کے تباہ حال انفرااسٹرکچر کی تعمیرِ نو میں ایک دہائی یا اس سے زائد عرصہ لگ سکتا ہے اور جو لاکھوں جانیں اس دوران ضائع ہو چکی ہیں، ان کا کوئی ازالہ ممکن نہیں ہے۔

اس ماہ طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کو توسیع دیتے ہوئے، اگر کسی طویل المدتی قیامِ امن کی گنجائش موجود بھی ہے تو یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا کوئی بھی فریق اس امکان کو سنجیدگی سے لیتا ہے یا نہیں۔ ایک ایسا قتل عام جو گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرے، اب بھی صہیونی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

اور یہ بالکل واضح نہیں کہ امریکی انتظامیہ چاہے ٹرمپ کی ہو یا کسی اور کی، اسرائیلی کارروائیوں کو روکنے کی صلاحیت یا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ اس نے خود اس خونریزی کی براہ راست سرپرستی کی ہے۔

ٹرمپ کے اگلے سال نوبیل انعام جیتنے کے امکانات وینزویلا کے خلاف امریکا کی عسکری کارروائیوں سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے رواں سال کی نوبیل انعام یافتہ کا تعلق بھی یہیں سے ہے۔ ماریا کورینا ماچادو نہ صرف ٹرمپ اور نیتن یاہو کی مداح ہیں بلکہ وہ ارجنٹینا کے حاویئر میلی، اٹلی کی جارجیا میلونی اور ہنگری کے وکٹر اوربان جیسے انتہا پسند رہنماؤں کے نظریات سے بھی ہم آہنگ ہیں۔

وہ مارگریٹ تھیچر کو پسند کرتی ہیں جبکہ وہ 2002ء میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والے ہوگو چاویز کے خلاف ناکام بغاوت میں بھی شریک رہیں جبکہ وہ سوشلزم کو ’ہمیشہ کے لیے دفن کرنے‘ کا عزم بھی ظاہر کر چکی ہیں۔ نوبیل انعام کمیٹی نے ماریا کی غیر جمہوری سرگرمیوں نظر انداز کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک ’متحد کرنے والی شخصیت‘ ہیں جو ’وینزویلا کے عوام کی آزادی کے لیے برسوں سے سرگرم ہیں‘۔

ان کے ایک امریکی مداح، دی نیویارک ٹائمز کے کالم نگار بریٹ اسٹیفنز نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ الفریڈ نوبیل کی وصیت کے مطابق یہ انعام اُس شخص کو دیا جانا چاہیے جس نے ’گزشتہ سال کے دوران انسانیت کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا ہو‘۔ انہوں نے یہ نکتہ اس لیے اٹھایا تاکہ وضاحت کی جا سکے کہ رواں سال ٹرمپ کو کیوں کمیٹی نے نظرانداز کیا۔ چلیے یہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ اس بات کی وضاحت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے کہ ماریا کورینا ماچادو نے آخر ’انسانیت کو سب سے زیادہ فائدہ‘ کیسے پہنچایا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب ناروے کی نوبیل کمیٹی نے انعام دینے میں سنگین حماقت کا مظاہرہ کیا ہو۔ آخر کو کمیٹی نے ہینری کیسنجر کو بھی نوبیل امن انعام سے نوازا تھا جس پر ہارورڈ کے ریاضی دان اور جز وقتی نغمہ نگار ٹام لیہرر نے 50 سال سے بھی پہلے طنزیہ کہا تھا کہ اب طنز مرچکا ہے۔

1973ء میں جب یہ انعام دیا گیا تو ہینری کیسنجر کے ساتھ مشترکہ طور پر یہ انعام جیتنے والے شمالی ویتام کے لی ڈک تھو نے دانشمندی سے یہ اعزاز قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس وقت ویتنام جنگ ختم نہیں ہوئی تھی۔

آج غزہ یا وینزویلا کا مستقبل کیا ہوگا، یہ ایک راز ہے۔ نہ تو وینزویلا کی ناکام نکولس مادورو کی حکومت اور نہ ہی حماس کی کارروائیاں اتنی سنگین ہیں جتنا کہ اسرائیلی دفاعی افواج کے مظالم ہولناک ہیں۔ نسل کش کارروائیوں کو ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی میں کھلی چھوٹ دی گئی۔ خود پذیرائی اور اپنی ٹیم کی غیر حقیقی تعریفوں سے ہٹ کر، امریکی صدر کی کنسیٹ میں تقریر کا اصل مقصد اسرائیل اور اس کے موجودہ وزیر اعظم کے لیے اپنی عقیدت کا اظہار کرنا تھا۔

ان کے لیے اراکین نے کھڑے ہو کر خوب تالیاں بجائی گئیں۔ اگرچہ ایک مختصر خلل بھی آیا لیکن اگر وہ فلسطینیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ وہ تعریفیں جن پر وہ فخر سے جھومتے ہیں، شرم الشیخ کے اجتماع میں بھی کسی طور ان میں کمی نہیں آئی۔ اس کانفرنس میں آخری لمحے پر ٹرمپ کو نیتن یاہو کو اپنے ساتھ لانے سے روکا گیا تھا۔

ٹرمپ اپنے اُس امن بورڈ کے لیے پُرجوش ہیں جس کی سربراہی وہ کرنے والے ہیں لیکن یہ ابھی معلوم ہونا باقی ہے کہ جب وہ قیام امن سے بیزار ہوجائیں گے تو اس کے بعد کیا ہوگا۔ یہ بات فلسطین کے لیے تو اہم ہے ہی بلکہ وینزویلا کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ماریا ماچادو اُس ہر فیصلے کی منظوری دیں گی جو وہ وینزویلا کے لیے کریں گے۔ ممکن ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اُن کی ہم عصر شخصیت نیتن یاہو کے بجائے محمود عباس ہوں۔

ٹرمپ اگلے سال کے نوبیل انعام کے لیے ممکنہ امیدوار ہو سکتے ہیں حالانکہ فرانچیسکا البانیز، گریٹا تھیونبرگ یا ورلڈ سینٹرل کچن ٹرمپ سے کہیں زیادہ اس انعام کے مستحق ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025