ڈراما ’جمع تقسیم‘: ناظرین کو اپنی زندگیوں کا عکس دکھانے لگا
پاکستانی ٹیلی ویژن پر عام طور پر وہی روایتی ساس بہو کے جھگڑوں پر مبنی کہانیاں دکھائی جاتی ہیں، لیکن ہم ٹی وی کا ڈراما سیریل ’جمع تقسیم‘ ان سب سے بالکل مختلف ہے۔
ڈراما ابتدائی مراحل میں ہونے کے باوجود منفرد اور حقیقت پر مبنی موضوع کی وجہ سے ناظرین کی خصوصی توجہ حاصل کر چکا ہے۔
اس کی کہانی نامور مصنفہ ثروت نذیر نے تحریر کی ہے، جنہوں نے اس کے ذریعے مشترکہ خاندانی نظام کی تلخ حقیقت کو نہایت مؤثر انداز میں اجاگر کیا ہے۔
ڈرامے میں طلحہ چہور اور ماورا حسین نئے شادی شدہ جوڑے قیس اور لیلیٰ کے کرداروں میں جلوہ گر ہیں، جب کہ جاوید شیخ، رانا ظفر، حسن احمد، مدیحہ رضوی، آمنہ ملک، سعد اظہر، دیپک پروانی اور تزین حسین جیسے معروف اداکاروں کے ساتھ چند باصلاحیت بچوں نے بھی اہم کردار ادا کیے ہیں، یہ سب مل کر ایک ایسے خاندانی نظام کو پیش کرتے ہیں جو بظاہر متحد دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
ابتدائی اقساط میں ’جمع تقسیم‘ ایک روایتی گھریلو کہانی معلوم ہوئی، لیکن جلد ہی ناظرین نے اس میں اپنی زندگیوں کی جھلک دیکھی اور بڑی تعداد میں اس کے ساتھ جڑ گئے۔
ماورا حسین کے کردار لیلیٰ کی مشکلات، سسرال میں گھریلو صلاحیتوں پر تنقید اور ایم بی اے کی ڈگری کے باوجود کمتر سمجھے جانے پر خواتین نے تبصروں میں افسردگی سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ لیلیٰ کو ایک ساتھ 40 روٹیاں بنانے، کھانا پکانے اور واشنگ مشین چلانا سیکھنے کا کہا جاتا ہے اور اگر وہ کوئی تجویز پیش کرے جیسے آٹومیٹک واشنگ مشین خریدنے کی تو اسے بغاوت سمجھا جاتا ہے۔
سسرال والے اس پر گستاخی اور روایات کے خلاف جانے کے الزامات لگاتے ہیں، جب کہ ناظرین اس سے خود کو جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
کہانی آگے بڑھتی ہے تو مشترکہ خاندانی نظام کی تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں، جیسے پسندیدہ کھانے چھپائے جاتے ہیں، خریدی گئی چیزیں پوشیدہ رکھی جاتی ہیں، حتیٰ کہ ایک خوشحال گھرانے میں دودھ جیسی بنیادی چیز پر بھی جھگڑے دکھائے گئے ہیں۔
شوہر اپنی بیوی کی مدد نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کی ’مردانگی‘ کے خلاف سمجھا جاتا ہے، جب کہ محبت کی شادی یا ملازمت کرنے والی خواتین مشکوک نظروں سے دیکھی جاتی ہیں۔
ڈرامے کا ایک انتہائی تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے کزنز بظاہر خوش دکھائی دیتے ہیں لیکن دراصل ایک دوسرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں، حتیٰ کہ اسی گھر میں جنسی ہراسانی جیسے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں جس سے گھر کے بزرگ لاعلم ہیں۔
ناظرین کے تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں بے شمار خواتین ایسی ہیں جنہیں ان کے خوابوں اور صلاحیتوں کے باوجود محض خدمت گزار بنا دیا گیا ہے، گھروں کے بزرگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ بہوئیں گھر کے تمام کام انجام دیتی ہیں، جب کہ کئی خاندان تنگ کمروں میں صرف اس لیے اکٹھے رہنے پر مجبور ہیں کہ اتحاد برقرار رہے، اسی دباؤ میں مائیں اپنے بچوں کی ذہنی حالت سے بھی غافل ہیں۔
ڈرامے کی مقبولیت کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر اسلامی علما کے بیانات بھی گردش کر رہے ہیں جن میں وضاحت کی گئی ہے کہ مشترکہ خاندان میں رہنا کوئی مذہبی فریضہ نہیں، بلکہ ایک معاشرتی روایت ہے جسے غلط طور پر دین سے جوڑ دیا گیا ہے۔
’جمع تقسیم‘ نے نہ صرف ناظرین کو سوچنے پر مجبور کیا ہے بلکہ معاشرتی حقیقتوں کو نئے زاویے سے پیش کیا ہے۔
اس ڈرامے کی کامیابی کا ایک بڑا سبب ہدایتکار علی حسن کا اندازِ پیشکش ہے، جو کہانی کو غیر ضروری طور پر طول نہیں دیتے، ہر قسط میں مناظر بدلتے ہیں، واقعات آگے بڑھتے ہیں اور جذباتی مناظر کو کھینچنے کے بجائے مختصر مگر اثر انگیز رکھا گیا ہے۔

یہ ڈراما اُن عام سیریلز سے مختلف ہے جن میں طویل فلیش بیک، رونے دھونے والے مناظر اور بار بار بجنے والے گانے شامل ہوتے ہیں۔
مصنفہ ثروت نذیر کے مطابق انہیں خوشی ہے کہ یہ ڈراما اتنے لوگوں کے دلوں کو چھو رہا ہے، مگر یہ افسوسناک بھی ہے کیونکہ کئی واقعات حقیقی زندگی سے متاثر ہیں۔
انہوں نے ڈراما لکھتے وقت یہ نہیں سوچا تھا کہ اتنے لوگ اپنے آپ کو لیلیٰ میں دیکھیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری ثقافت میں مشترکہ خاندانی نظام کو اکثر رومانوی رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر دکھایا کہ یہ نظام بعض اوقات بہت تکلیف دہ بھی ہو سکتا ہے، ان کے کردار بڑوں کی بے ادبی نہیں کرتے، لیکن بڑوں پر بھی لازم ہے کہ وہ ذمہ داری سے پیش آئیں۔
ثروت نذیر کے مطابق بہت سے جوڑے پدر شاہی ذہنیت کا شکار ہیں جہاں بزرگ محض اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے کنٹرول قائم رکھتے ہیں، اگرچہ بعض اوقات معاشی وجوہات کی بنا پر مشترکہ خاندانی نظام سہارا بن جاتا ہے، لیکن اس کے منفی اثرات پر بات کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ کسی مذہبی فریضے کا حصہ نہیں۔
ڈراما ’جمع تقسیم‘ سماجی بیداری کا ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے، اگر کہانی اپنی رفتار برقرار رکھتی ہے اور لیلیٰ جلد اپنے لیے کھڑی ہوتی ہے تو یہ ڈراما عام روایتی ڈراموں سے بالکل منفرد ثابت ہوگا۔
یہ ڈراما دیکھنے میں مشکل ضرور ہے، مگر اپنی عمدہ تحریر، بہترین ہدایت اور زبردست اداکاری کے باعث یہ ہمارے معاشرے کی حقیقت کا آئینہ بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ناظرین اس سے نظریں نہیں ہٹا پا رہے۔
اگرچہ اس تلخ حقیقت پر خوش ہونا ممکن نہیں۔












لائیو ٹی وی