پنجاب پولیس کا ٹی ایل پی کو ’غیر مؤثر‘ بنانے کا فیصلہ، مقدمات کی تعداد 72 ہوگئی
مریدکے میں پیش آنے والے واقعات کے بعد پولیس نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لاتے ہوئے اس گروہ کو ’غیر مؤثر‘ بنانے کے لیے کئی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ اس گروہ نے اپنے قیام سے اب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں اور غیر مسلم برادریوں کے لیے ایک سنگین خطرہ پیدا کیا ہوا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انتہا پسند تنظیم کو لگام ڈالنے کے فیصلے کو اُن اہم اجلاسوں سے جوڑا جا رہا ہے، جن میں ٹی ایل پی کے سلسلہ وار پرتشدد احتجاج، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر مہلک حملوں، اور مسیحی و احمدی عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ جیسے جرائم پر غور کیا گیا۔
اس دوران تنظیم کے خلاف درج مقدمات کی تعداد 72 تک پہنچ گئی ہے، جن میں سے کم از کم 39 لاہور میں درج کیے گئے ہیں، جب کہ ٹی ایل پی کی دوسری اور تیسری صف کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ گزشتہ چند برسوں میں پنجاب میں ٹی ایل پی کے خلاف درج ہونے والے فوجداری مقدمات کی سب سے بڑی تعداد بتائی جا رہی ہے، رپورٹس کے مطابق تنظیم کی پہلی اور دوسری صف کے بعض سینئر رہنماؤں کو لاہور اور شیخوپورہ پولیس نے گرفتار کیا ہے۔
اعلیٰ سطح کے اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ ایک سینئر پولیس افسر نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ حکام کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اُن ٹی ایل پی رہنماؤں کو سزا دی جائے جو مذہب کے نام پر نوجوانوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔
افسر نے کہا کہ اجلاس میں بتایا گیا کہ ٹی ایل پی کو صرف سیاسی سرگرمیوں تک محدود کیا جانا چاہیے تاکہ اسے ماضی کی طرح تشدد اور غیر قانونی اجتماعات کے ذریعے ریاست کو بلیک میل کرنے سے روکا جا سکے۔
شرکا کو یہ بھی آگاہ کیا گیا کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران پنجاب بھر میں گرجا گھروں اور دیگر مذہبی مقامات پر 25 حملے ٹی ایل پی کے کارکنان نے کیے۔
پولیس افسر کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ ان میں سے زیادہ تر واقعات میں ٹی ایل پی کے کارکنان ملوث پائے گئے، جو مشتعل ہو کر توڑ پھوڑ کرتے، املاک کو آگ لگاتے اور بعض اوقات جانی نقصان کا باعث بنتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس کے تمام شرکا متفق تھے کہ ریاست اور اس کے اداروں کے لیے یہ آخری موقع ہے کہ وہ ٹی ایل پی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں۔
2 ہزار 700 سے زائد گرفتاریاں
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب پولیس نے مریدکے میں دھرنا دینے والے ٹی ایل پی کارکنوں کے خلاف آپریشن کے بعد 2 ہزار 716 افراد کو گرفتار کیا، صوبائی پولیس سربراہ نے ’ڈان‘ کو ان گرفتاریوں کی تصدیق کی۔
لاہور پولیس نے 251، شیخوپورہ پولیس نے 178، منڈی بہاالدین پولیس نے 190، راولپنڈی پولیس نے 155، فیصل آباد پولیس نے 143 اور گوجرانوالہ پولیس نے 135 کارکنان کو گرفتار کیا ہے۔
اسی طرح سیالکوٹ پولیس نے 128 کارکنان کو حراست میں لیا، پولیس ریکارڈ کے مطابق زیادہ تر گرفتاریاں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران پنجاب بھر میں کی گئیں، جب ٹی ایل پی کارکنان مریدکے آپریشن کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
اسی طرح، وہاڑی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 25 کارکنان کو گرفتار کیا اور 300 سے زائد افراد کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کے تحت وہاڑی اور بوریوالہ تھانوں میں 2 الگ ایف آئی آرز درج کی گئیں۔
ادھر ڈیرہ غازی خان میں ٹی ایل پی کے کارکنان کے ایک گروہ نے مبینہ طور پر دریائی پولیس چوکی ’بیٹھ چین والا‘ پر حملہ کیا اور فرار ہوگئے، یہ واقعہ جھوک اُترا کے قریب پیش آیا، پولیس ترجمان ذیشان نے کہا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔
ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی موجودہ جگہ کے بارے میں تاحال معلومات نہیں۔
لاہور کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) فیصل کامران نے کہا کہ ٹی ایل پی سربراہ پولیس آپریشن کے دوران فرار ہوگئے تھے، تاہم ان کا سراغ لگا لیا گیا ہے اور انہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران بھاری رقم برآمد ہونے کے بعد سعد رضوی کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کی گئی ہیں۔













لائیو ٹی وی