کراچی: ڈیفنس کی کافی شاپ کو تھائی لینڈ کی کیفے چین کا نام استعمال کرنے پر نوٹس
کراچی کی صارف عدالت (کنزیومر کورٹ) نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز ایٹ میں واقع ایک کافی شاپ کو غیر قانونی طور پر تھائی لینڈ کی ایک کیفے چین کا نام استعمال کرنے کے الزام میں دائر کی گئی درخواست پر نوٹس جاری کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے مدعا علیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ 31 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہو کر الزامات کا جواب دے۔
صارف سید محمد علی جعفری نے اپنے وکیل عبدالاحد خان کے ذریعے سندھ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2015 کی متعلقہ دفعات کے تحت ضلع جنوبی کی صارف عدالت کے مجسٹریٹ کے روبرو مدعا علیہ ’مونڈو کافی بار‘ کے خلاف درخواست دائر کی، جو ڈی ایچ اے فیز ایٹ میں کام کر رہی ہے۔
وکیل نے الزام لگایا کہ یہ کیفے مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے تھائی لینڈ میں قائم ’مونڈو ایسپریسو اینڈ ٹی بار‘ کے ’ٹریڈ مارک، ڈیزائن اور لوگو‘ کو غلط طریقے سے استعمال کر رہی ہے۔
ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے مدعا علیہ کو طلب کیا کہ وہ یا تو خود یا اپنے مقرر کردہ وکیل کے ذریعے عدالت میں حاضر ہو اور تمام متعلقہ سوالات کے جوابات دے سکے، یا کسی ایسے شخص کے ساتھ آئے جو ان سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہو۔
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ 31 اکتوبر کو وہ تمام دستاویزات پیش کریں، جن پر آپ اپنے دفاع میں انحصار کرنا چاہتے ہیں، اور اسی دن تحریری جواب بھی جمع کرائیں’۔
درخواست میں وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جب مدعی نے ڈی ایچ اے میں قائم ایک ’بہت مشہور اور مقبول‘ کافی شاپ کے بارے میں سنا، جو ابتدائی طور پر ’مونڈو ایسپریسو اینڈ ٹی بار‘ کے نام سے کام کر رہی تھی اور اسے ایک بین الاقوامی چین کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، جس نے بعد میں اپنا نام بدل کر ’مونڈو کافی بار‘ رکھ لیا تھا، تو انہوں نے مئی میں ایک ساتھی کے ساتھ وہاں جاکر کافی خریدی، اس یقین کے ساتھ کہ یہ تھائی لینڈ کی برانڈڈ کیفے کی شاخ ہے۔
تاہم، درخواست گزار کے مطابق وہ ’حیران اور دنگ‘ رہ گئے، جب انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ڈی ایچ اے میں قائم یہ کیفے مبینہ طور پر ’غلط، غیر قانونی، دھوکا دہی سے، اور بغیر کسی قانونی اختیار کے‘ تھائی لینڈ کی ملکیت والی برانڈ کا نام اور ٹریڈ مارک لوگو استعمال کر رہی ہے۔
فوکٹ (تھائی لینڈ) میں قائم اصل کیفے کے آفیشل انسٹاگرام پیج کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل احد نے عدالت کو بتایا کہ وہاں وضاحت کی گئی ہے کہ پاکستان میں اسی طرح کے نام سے کام کرنے والی کافی شاپ کا ان کے ادارے سے کوئی تعلق نہیں، اور مدعا علیہ نے مبینہ طور پر ’چالاکی سے برانڈ کا نام، لوگو اور ڈیزائن چرا لیا ہے‘ جو اصل کیفے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مدعا علیہ کافی کے کپ، ٹیک اَوے بیگز اور ٹشو پیپرز پر وہی ٹریڈ مارک لوگو اور ڈیزائن استعمال کر رہا ہے جو تھائی لینڈ کے کیفے سے مشابہ ہیں۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ مدعی ’صارف‘ کی تعریف میں آتا ہے، جبکہ مدعا علیہ مینوفیکچرر کے زمرے میں آتا ہے اور کافی سندھ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2015 کے تحت ایک پروڈکٹ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مدعا علیہ کے دھوکا دہی کے اقدامات ایکٹ کی دفعہ 13 کے تحت خراب اور ناقص سروسز کے زمرے میں آتے ہیں، جو اس کے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ مدعا علیہ نے ایکٹ کی دفعہ 21 کی بھی خلاف ورزی کی ہے جو جھوٹے، گمراہ کن اور فریب دہ نمائندگی سے متعلق ہے، اس طرح جھوٹی تشہیر کے ذریعے غیر منصفانہ عمل کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اس بنیاد پر مدعی ہرجانے، مالی نقصان کے ازالے، خصوصی نقصانات، بالواسطہ و بلاواسطہ ریلیف اور ادائیگی کی واپسی کا حقدار ہے۔
وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ مدعی کو ناقص اور فریب دہ خدمات فراہم کرنے اور جھوٹی تشہیر کرنے پر 50 لاکھ روپے بطور ہرجانہ دلایا جائے۔












لائیو ٹی وی