’نسل کشی کے ڈیجیٹل شواہد مٹانے کی کوشش میں اسرائیل کا پہلا ہدف ٹک ٹاک ہے‘
6 اکتوبر 2023ء کو آپ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ دنیا میں اسرائیل کے خلاف اس قدر شدید نفرت پائی جائے گی جتنی کہ آج پائی جاتی ہے۔ آج اسرائیل، نسل کشی، منظم انداز میں ریپ، ظلم و ستم اور بچوں کے قتل عام کا دوسرا نام بن چکا ہے۔
ایک کے بعد ایک ویڈیو میں ہم نے نہ صرف اسرائیلی افواج کے جنگی جرائم اور ظلم و ستم دیکھے ہیں بلکہ ان قاتل فوجیوں، جرنیلوں اور حکومتی اہلکاروں کے چہروں پر خوشی اور فخر بھی دیکھا ہے جو ان مذموم کارروائیوں کی ہدایات دیتے ہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگ یہ مناظر دیکھتے ہوئے نفرت اور گِھن محسوس کرتے ہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ لوگ، متاثرین پر اظہارِ افسوس کریں اور ان لوگوں کے خلاف مشتعل ہوں جوکہ ان مظالم کے ذمہ دار ہیں اور ان کارروائیوں میں کوئی شرمندگی ظاہر نہیں کرتے۔
لیکن جب اسرائیل اور اس کے حامی اس نئی دنیا کو دیکھتے ہیں تو وہ اس غصے کی وجہ اپنے اعمال کو نہیں سمجھتے بلکہ وہ ’یہود مخالفت‘ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جو ایک ایسا بہانہ بن چکا ہے جس کا اثر اب ختم ہو چکا ہے۔ وہ خاص طور پر سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک کو اسرائیل مخالف جذبات پھیلانے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
ان کے خیال میں ہمیں اتنی نفرت اس لیے نہیں ملتی کہ ہم نے ظلم ڈھائے ہیں بلکہ اس کی وجہ الگورتھمز ہیں۔ لہٰذا ان کی سوچ یہ ہے کہ اگر وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی ویسے ہی اپنے دباؤ میں لیں، انہیں خریدیں یا کنٹرول کر لیں جیسے وہ مغربی مین اسٹریم میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں تو اسرائیل مخالف جذبات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اپنی نسل کشی کے ڈیجیٹل شواہد کو مٹا دیں تو یہ سب بھلا دیا جائے گا۔ اور فی الحال وہ یہی کام کر رہے ہیں۔
سب سے پہلے انہوں نے ٹک ٹاک پر توجہ مرکوز کی ہے اور بالکل بجا کی ہے کیونکہ نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد ٹک ٹاک پر فلسطینی اور اسرائیلی حمایت میں کیے گئے پیغامات کا مطالعہ کیا تھا۔ اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ فلسطینی حمایت میں ایک لاکھ 70 ہزار 430 پوسٹس کی گئی تھیں جبکہ اسرائیل کے حق میں صرف 8 ہزار 843 پوسٹس تھیں۔
لیکن ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ معاملہ صرف تعداد کا نہیں بلکہ صارفین کی انگیجمنٹ کا بھی ہے۔ یہاں دیکھا گیا کہ فلسطینی حمایت والی پوسٹس کو 23 کروڑ 60 لاکھ مرتبہ دیکھا گیا جبکہ اسرائیل کے حق میں پوسٹس کو صرف ایک کروڑ 40 لاکھ مرتبہ دیکھا گیا۔
اور پھر آئندہ دو سالوں میں اس رجحان میں کمی آنے کے بجائے فلسطینی حمایت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ اگرچہ 7 اکتوبر کے فوراً بعد اسرائیل کے حق میں پوسٹس اور ویوز میں اضافہ ہوا تھا جوکہ ایک اہم واقعے کے ردعمل کے طور پر معمول کی بات ہے لیکن اس کے بعد وہ تعداد کم ہونا شروع ہو گئی۔ جبکہ فلسطینی حمایت میں پوسٹس اسی طرح اضافہ ہوتا رہا جسے ایک دیرپا اور وسیع تحریک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
صہیونیوں نے اس مسئلے کو جلد ہی پہچان لیا جس کا اظہار امریکا کی اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کے سربراہ جوناتھن گرین بلاٹ نے اپنی لیک آڈیو میں کیا کہ ’ہمارا مسئلہ ٹک ٹاک ہے، ایک جین زی کا مسئلہ ہے‘، جسے حل کرنا ضروری ہے۔
روایتی صہیونی انداز میں انہوں نے یہ کام امریکی سیاست پر اپنے اثر و رسوخ اور بڑے پیمانے پر مالی وسائل کے استعمال سے کیا۔ اچانک امریکا میں ایک مہم شروع ہوئی جس میں چینی حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ ٹک ٹاک کے الگورتھم میں مداخلت کر رہی ہے اور امریکی صارفین کے نجی ڈیٹا تک رسائی حاصل کر رہی ہے اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ امریکا میں ٹک ٹاک کے آپریشنز کو فروخت کر دیا جائے۔
یہ ایک واضح حکمت عملی تھی کیونکہ اصل وجہ جس کی بنا پر ٹک ٹاک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کا تعلق چین سے نہیں بلکہ اسرائیل اور اس کی عالمی ساکھ سے ہے۔
اسی لیے ہم نے دیکھا کہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے سیاستدانوں نے ٹک ٹاک کے خلاف صف بندی کرلی تاکہ اسرائیل کو دوبارہ عظیم بنایا جا سکے اور ٹک ٹاک کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے امریکی آپریشنز کو فروخت کر دے۔ لیکن ٹک ٹاک کو خریدے گا کون؟ یہاں خریداروں کا ایک گروپ نمودار ہوا جس میں سب سے بڑا خریدار اوریکل تھا۔
اوریکل کی شروعات لیری ایلیسن نے کی تھی جو ایک امریکی ارب پتی تھے جو کبھی دنیا کے امیر ترین شخص ہو اکرتے تھے۔ لیری ایلیسن اسرائیلی فوج کا سب سے بڑا ذاتی عطیہ دہندہ بھی ہے اور ’سب سے پہلے اسرائیل‘ کے عزم کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ جہاں تک اوریکل کا تعلق ہے تو اس کی سابق سی ای او صفرا کٹز نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک کو ایک ای میل میں کھلے عام لکھا تھا کہ ’ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ امریکی ثقافت میں اسرائیل سے محبت اور عقیدت کو حصہ بنایا جائے‘ اور ایک اور بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ اوریکل کی اسرائیل سے وابستگی ’بہت اعلیٰ درجے کی ہے‘۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب اوریکل ٹک ٹاک کا کنٹرول سنبھال لے گا تو ٹک ٹاک کیسا ہوجائے گا۔
بنیامن نیتن یاہو ابھی سے جشن منا رہے ہیں۔ حال ہی میں اپنی ساتھیوں کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’سب سے اہم میدانِ جنگ سوشل میڈیا ہے اور اس وقت جو سب سے اہم خریداری ہو رہی ہے وہ۔۔۔ ٹک ٹاک کی ہے‘۔
اور اس جنگ میں کامیابی کے بعد ان کی نظر اب صرف دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہے جن میں اگلا بڑا ہدف ایکس (سابقہ ٹوئٹر) ہے۔ اور توقع کے مطابق ہم نے اسرائیلی میڈیا میں متعدد مضامین دیکھے ہیں جو ایکس کو یہود مخالفت کا نیا مرکز قرار دے رہے ہیں۔ لیکن نیتن یاہو اس بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’ایلون میرا دوست ہے۔۔۔ ہمیں اس سے بات کرنی چاہیے‘۔ وہ کریں گے۔ اور ایلون ان کی بات مانیں گے۔ اسرائیل مصنوعی ذہانت کے پیچھے بھی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے امریکی صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ایک سابق منیجر کو 60 لاکھ ڈالرز کا معاہدہ پیش کیا ہے تاکہ وہ اسرائیل نواز ویب سائٹس اور ویڈیوز تیار کرے جن پر چیٹ جی پی ٹی اور دیگر بڑے لینگویج ماڈلز (ایل ایل ایمز) کو تربیت دی جائے گی۔
مقصد یہ ہے کہ ان میں اسرائیلی پروپیگنڈا فیڈ کیا جائے تاکہ وہ بھی اسے تیار کرنے اور پھیلانے میں مدد کریں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے نسل کشی کو بھلایا جاسکتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی