• KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.2°C

ٹی ایل پی کا فلسطین مارچ منافقت تھی یا مخلصانہ کوشش؟

شائع October 21, 2025
—السٹریشن: ابڑو
—السٹریشن: ابڑو

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حماس اور اسرائیلی حکومت کے درمیان ’امن معاہدہ‘ کروانے کے صرف ایک دن بعد، پاکستان کی شدت پسند تنظیم تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اعلان کیا کہ اس کے رہنما اور کارکنان اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب مارچ کریں گے۔ اس مارچ کا مقصد فلسطینی عوام کی حمایت میں احتجاجی ریلی منعقد کرنا تھا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جب اسرائیلی افواج غزہ پر بمباری کر رہی تھیں تو اس دوران ٹی ایل پی تقریباً خاموش تھی۔ لہٰذا حکومت پاکستان نے بجا طور پر ٹی ایل پی کے اس اچانک ردعمل کے پیچھے اس کے اصل ارادے پر سوال اٹھایا۔

فلسطینی تنظیم حماس ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے میں درج بعض اہم شرائط کو کسی حد تک قبول بھی کر چکی تھی جبکہ اسرائیل کی دائیں بازو کی صہیونی حکومت نے غزہ میں اپنی جارحیت کو کم از کم کچھ وقت کے لیے معطل کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

تو پھر ٹی ایل پی دراصل چاہتی کیا تھی؟ اس کے کارکنان اور قیادت نے امریکی سفارت خانے تک پہنچنے کی کوشش میں پولیس سے جھڑپیں کیں اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا۔ شاید یہ تاخیر سے ’بیدار‘ ہونے کا معاملہ تھا۔ لیکن اگر بات اسرائیل-فلسطین جیسے دہائیوں پرانے تنازع کی ہو تو ٹی ایل پی فطری طور پر اس معاملے پر آواز اٹھانے کے لیے بالکل بھی موزوں فریق نہیں۔

کئی سالوں تک اس مسئلے کو شاذ و نادر ہی ایک ’مذہبی تنازع‘ کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ ایک زمین کے حصول کی جنگ تھی (اور اب بھی ہے)۔ 20ویں صدی کے پہلے نصف میں جو صہیونی گروہ اس حوالے سے سب سے زیادہ سرگرم تھے، وہ زیادہ تر سیکیولر تھے اور ان میں سے کئی کے نظریات بائیں بازو کے تھے۔

ان صہیونی گروہوں کو فلسطینی عربوں کی جانب سے مسائل کا سامنا تھا جو ایک ایسی قوم پرستی سے متاثر تھے جو عرب قوم پرستی کی شاخ تھی۔

عرب قوم پرستی کی جڑیں 19ویں صدی کی ایک فکری اور سیاسی تحریک ’نہضہ‘ (Nahda) سے جا ملتی ہیں۔ نہضہ کا مقصد یورپی نوآبادیاتی حکمرانی اور کمزوری کا شکار سلطنتِ عثمانیہ کو چیلنج کرنا تھا اور عربوں کو ایک جدید، ترقی پسند اور ثقافتی طور پر متحد قوم بنانا تھا۔ اس تحریک نے بعد میں مزید ترقی پائی جسے آگے بڑھانے میں بالخصوص فلسطین، شام، مصر اور عراق میں مسلم اور مسیحی عرب دانشوروں نے کردار ادا کیا۔

عرب قوم پرست تحریکوں سے ہی زیادہ تر عرب تنظیمیں وجود میں آئیں جو صہیونیت کی مخالف تھیں۔ کم از کم 1980ء کی دہائی کے اوائل تک، ان تنظیموں کا عزم عرب اتحاد اور صہیونیت دشمنی تھا۔ ان کا نظریاتی دائرہ دائیں بازو کے بجائے بائیں بازو سے منسلک تھا جوکہ انتہائی بائیں بازو سے لے کر معتدل بائیں بازو تک پھیلا ہوا تھا۔

اسی لیے غیر عرب، مسلم اکثریتی ممالک میں ترقی پسند تنظیمیں قدرتی طور پر قضیہ فلسطین کی حامی بن گئیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بائیں بازو کی پہلی حکومت (1971ء–1977ء) نے بائیں بازو کی فلسطینی تنظیموں کو پاکستان میں اپنے دفاتر کھولنے اور مالی امداد حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی۔ اس طرح پی پی پی فلسطینی مقصد کی موزوں حامی بن گئی۔

تاہم 1980ء کی دہائی کے اوائل سے سیکیولر یعنی غیرمذہبی فلسطینی تنظیموں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر ان گروہوں کی جانب سے جو اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون سے متاثر ہو کر وجود میں آئے تھے۔ ان سیکیولر تنظیموں کو ایک اور محاذ پر بھی چیلنج درپیش تھا جوکہ وہ شدت پسند شیعہ تنظیمیں تھیں جو 1979ء کے ایرانی اسلامی انقلاب سے متاثر تھیں۔

اخوان المسلمون کا قیام 1920ء کی دہائی میں مصر میں عمل میں آیا تھا لیکن 1950ء کی دہائی سے اُبھرنے والی عرب قوم پرست حکومتوں کے ساتھ اس کا تصادم ہوگیا۔ ان قوم پرست حکومتوں نے اخوان المسلمون کو ایک رجعت پسند تحریک سمجھا اور اسے سختی سے دبانے کی کوشش کی۔

اسی دوران سعودی عرب نے اخوان المسلمون کے رہنماؤں اور کارکنان کو پناہ اور مالی معاونت فراہم کرنا شروع کی۔ سعودی ریاست نے اخوان المسلمون اور اس کی ذیلی تنظیموں کا اس لیے ساتھ دیا کیونکہ وہ سیکیولر فلسطینی تنظیموں کو سوویت یونین کے آلہ کار اور عرب سلطنتوں کے لیے خطرہ سمجھتی تھی۔

سعودی حکمتِ عملی یہ تھی کہ اسلامسٹ گروہوں کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ ان سیکیولر یا بائیں بازو کی تنظیموں کو کمزور کر سکیں جو اُس وقت اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش تھیں۔ سعودی حکومت چاہتی تھی کہ ’کمیونزم مخالف‘ اسلامسٹ گروہ قضیہ فلسطین پر قابض ہوجائیں اور اس کی قیادت سنبھال لیں۔

دلچسپ ہے کہ اب اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ اسرائیلی ریاست نے بھی اسلامسٹ گروہوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ اکتوبر 2023ء میں اسرائیلی صحافی طال شنائیڈر نے تحریر کیا تھا کہ 1970ء کی دہائی میں ’اسرائیل نے غزہ میں اسلامسٹ سرگرمیوں میں اضافے کی اجازت دی تھی‘۔

اسرائیل نے شیخ احمد یاسین کے زیرِ انتظام فلاحی ادارے کو وسعت دینے میں مدد کی۔ 1970ء کی دہائی کے آخر تک یہ فلاحی ادارہ ایک سیاسی تحریک کا روپ اختیار کرچکا تھا۔ اسرائیل نے اس تحریک کو ان سیکیولر فلسطینی عسکری گروہوں کے مقابلے میں کم خطرناک متبادل کے طور پر دیکھا۔ اس تحریک کی جانب سے سیکیولر فلسطینی قوتوں کے خلاف دشمنی کی اسرائیل نے حوصلہ افزائی بھی کی۔

احمد یاسین اخوان المسلمون کے زیرِ اثر تھے اور 1987ء میں ان کی تحریک ایک عسکری-سیاسی تنظیم میں بدل چکی تھی جسے ہم حماس کے نام سے جانتے ہیں۔ حماس نے فلسطینی قوم پرستی کو جارحانہ انداز میں اسلام پسند رنگ دے کر اسے نئی شکل دی۔ نتیجتاً فلسطینی جدوجہد کو ایک مذہبی تنازع کے طور پر دیکھنے کا بیانیہ زور پکڑنے لگا۔ بلآخر اس بیانیے کو صہیونی دائیں بازو نے بھی اپنانا شروع کر دیا۔

تو غیر عرب مسلم ممالک میں وہ سیاسی گروہ تھے جن کی جڑیں اخوان المسلمون اور اس کی ذیلی تنظیموں میں ہیں یا جو ان سے متاثر ہوئے، وہ بھی قضیہ فلسطین کے فطری حامی بن گئے۔ پاکستان کی معروف مذہبی جماعت، جماعتِ اسلامی اس کی ایک مثال ہے۔

اخوان المسلمون اور اس کی متعدد ذیلی تنظیمیں سنی ہیں اور وہ جس نظریے کی پیروی کرتی ہیں اسے عام طور پر ’سیاسی اسلام‘ یا ’اسلام ازم‘ کہا جاتا ہے۔ اسلام ازم اسلامی علامات، روایات اور اقدار سےپروان چڑھتا ہے تاکہ سماجی و سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ یہ تحریک بنیادی طور پر 20ویں صدی کے اوائل میں اُبھر کر سامنے آئی تھی۔

جماعت اسلامی کی طرح جنوبی ایشیا کی دیگر زیادہ تر اسلام پسند جماعتیں بھی اسلام ازم سے گہرا تعلق رکھتی ہیں لیکن جماعتِ اسلامی کے برخلاف وہ قضیہ فلسطین کی فطری حامی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی ایشیا کے سنی مسالک جیسے بریلوی اور دیوبندی کے اسلام پسند گروہوں کو عرب دنیا میں خاص قبول نہیں کیا جاتا۔

حقیقت میں بریلوی اسلام (جو جنوبی ایشیا میں فقہ ہے) کو اکثر عرب ممالک میں ناپسند کیا جاتا ہے۔ اور یہی وہ مسلک ہے جس کی نمائندگی تحریکِ لبیک پاکستان کرتی ہے۔ ٹی ایل پی نظریاتی طور پر ’عرب پسند اسلام‘ کی مخالف ہے جبکہ وہ شیعہ مسلک کے خلاف بھی ہے۔

سیاسی شیعہ تحریکیں جنہوں نے امَل اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کو جنم دیا، قضیہ فلسطین سے منسلک ہوگئیں کیونکہ یہ تحریکیں اسرائیل کے ہمسایہ ملک لبنان میں ابھری تھیں اور بہت سے شیعہ عرب ایک وقت میں مختلف بائیں بازو کی صہیونیت مخالف تنظیموں کا حصہ تھے۔

ٹی ایل پی ایک سخت گیر اور جذباتی سیاسی گروپ ہے جو پاکستان میں بریلوی فقہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا قضیہ فلسطین سے کوئی گہرا تعلق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں، فلسطینی تحریک کی قیادت پہلے غیر مذہبی اور بائیں بازو کے مسلم گروپوں نے کی تھی جبکہ بعد میں اخوان المسلمون سے متاثر ہونے والے اسلامی گروہوں اور ایران کے حمایت یافتہ شیعہ گروہوں نے اس کے حق میں جدوجہد کی۔

دوسری جانب ٹی ایل پی سیاسی اسلام سے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے فرقہ وارانہ اور ذیلی فرقہ وارانہ تقسیم سے متاثر ہو کر وجود میں آئی ہے۔ اسی طرح، طالبان جیسے عسکریت پسند سنی گروہ بھی قضیہ فلسطین سے فطری تعلق کا دعویٰ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا اسلام کا ورژن جنوبی ایشیا کے سخت سنی عقائد سے تعلق رکھتا ہے جسے دیوبندی بنیاد پرستی کہا جاتا ہے۔

ان دونوں گروہوں کی عرب دنیا میں کوئی سیاسی یا سماجی جڑیں نہیں ہیں اور یقینی طور پر عرب قوم پرستی کے ساتھ بھی ان کا کوئی تعلق نہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025