• KHI: Partly Cloudy 24.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 15°C
  • KHI: Partly Cloudy 24.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 15°C

تحریک تحفظ آئین پاکستان کے نام سے ’اتحاد‘ کی رجسٹریشن کی درخواست واپس لے لی گئی

شائع October 21, 2025
الیکشن کمیشن نے درخواست واپس لینے کی ہدایت کی اور خبردار کیا کہ بصورتِ دیگر کارروائی کی جائے گی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
الیکشن کمیشن نے درخواست واپس لینے کی ہدایت کی اور خبردار کیا کہ بصورتِ دیگر کارروائی کی جائے گی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

3 غیر معروف اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان (ٹی ٹی اے پی) کے نام سے ایک اتحاد کے طور پر رجسٹریشن کی دائر درخواست واپس لے لی ہے، اور ساتھ ہی اس درخواست سے خود کو الگ بھی کر لیا ہے۔

یہ معاملہ اُس وقت اہمیت اختیار کر گیا تھا، جب معلوم ہوا کہ یہی نام پہلے سے محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں موجود ایک اپوزیشن اتحاد کا ہے، جن رہنماؤں نے یہ درخواست دائر کی تھی، ان میں پاکستان امن تحریک کے چیئرمین علی شیر یوسف زئی، پاکستان فلاحی تحریک کے چیئرمین فضل امان خان، اور پاکستان ویلفیئر پارٹی کے چیئرمین محمد فاروق شامل تھے۔

ٹی ٹی اے پی نے اس اقدام کو اپنے نام پر قبضہ کرنے اور اپنی مزاحمتی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا دیتے ہوئے اپنا قانونی وفد تشکیل دیا تھا تاکہ وہ ای سی پی میں اپنا مؤقف پیش کرے، آج کمیشن کے سامنے مصطفیٰ نواز کھوکھر پیش ہوئے۔

بلوچستان کے رکن شاہ محمد جتوئی کی سربراہی میں ای سی پی کے 3 رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران پاکستان فلاحی تحریک کے چیئرمین فضل امان خان نے ای سی پی کو بتایا کہ ان کی جماعتوں نے اتحاد کی رجسٹریشن کے لیے کوئی درخواست نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک نوٹس کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ ہم نے درخواست دائر کی ہے۔

اس پر پنجاب کے رکن بابر حسن بھروانہ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے خود کوئی نوٹس جاری نہیں کیا، ضرور کسی نے درخواست دی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ درخواست کی فرانزک جانچ کرائی جائے اور کہا کہ آپ اپنے قانونی مشیر سے مشورہ کریں اور اگر غلطی سے درخواست دی گئی ہے تو معافی مانگیں۔

ای سی پی نے تینوں جماعتوں کو درخواست واپس لینے کی ہدایت کی اور خبردار کیا کہ بصورتِ دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

دوسری جانب، مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ریکارڈ کی فراہمی کے لیے درخواست دائر کی، انہوں نے کہا کہ ایک اپوزیشن اتحاد محمود خان اچکزئی کی قیادت میں اسی نام سے قائم ہے، لہٰذا ای سی پی کو یہ درخواست منظور نہیں کرنی چاہیے۔

ای سی پی نے تینوں درخواست گزاروں سے تفصیلی بیانات طلب کیے اور کہا کہ وہ مناسب حکم جاری کرے گا، بعد ازاں، درخواست گزاروں نے اپنے ہاتھ سے لکھی گئی درخواستیں جمع کروائیں جن میں انہوں نے اپنی ابتدائی درخواست واپس لے لی۔

سینئر سیاستدان محمود خان اچکزئی پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے-میپ) کے بھی سربراہ ہیں، انہیں فروری 8 کے عام انتخابات کے چند ہفتوں بعد ٹی ٹی اے پی کا چیئرمین بنایا گیا تھا، اس اتحاد میں تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سمیت دیگر بڑی جماعتیں شامل ہیں۔

یہ اتحاد الزام لگاتا ہے کہ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چرایا گیا اور وہ موجودہ حکومت کو عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں مانتا، اپوزیشن اتحاد نے حال ہی میں خاص طور پر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں آنے والے سیلابوں کے باعث اپنے ملک گیر عوامی جلسے اور احتجاج عارضی طور پر ملتوی کر دیے ہیں۔

’اپوزیشن کے لیے گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے‘

الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اس درخواست کو ’بچکانہ سوچ‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں اپوزیشن کے لیے گنجائش دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے، انہوں نے ٹی ٹی اے پی کا نام چرانے کی کوشش پر افسوس کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اتحاد کافی عرصے سے زیرِ تشکیل ہے، سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی اس کا حصہ ہے، مجلس وحدت المسلمین بھی اس میں شامل ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل بھی اس کا حصہ ہیں، دیگر جماعتیں اور سول سوسائٹی کے افراد بھی اس میں شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسی درخواستیں منظور نہیں کی جانی چاہئیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک بہتر طریقے سے، قانون کی حکمرانی کے تحت چلے تو ہمیں اس طرح کی حرکتوں سے گریز کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج جو 3 جماعتیں آئیں، ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہیں، انہوں نے اپنی درخواست واپس لے لی۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ آئندہ کے لیے ہم بھی باشعور ہیں، اور اس طرح کی کوششوں کے سامنے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہم اپنی سیاسی اپوزیشن کے حق کا دفاع اور فروغ جاری رکھیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025