26ویں آئینی ترمیم کیس: ہمارا تحمل دیکھیے، ہم مسلسل بیٹھے یہاں جھوٹ سن رہے ہیں، جسٹس امین الدین خان
سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس میں درخواست گزار وکیل کی جانب سے آئینی بینچز کی تشکیل میں حکومتی کردار کی بات کی گئی تو جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہمارا تحمل دیکھیے، ہم مسلسل بیٹھے یہاں جھوٹ سن رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل شبر رضا رضوی عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نئے آئینی بینچ کو کچھ اختیارات دیے گئے ہیں لیکن سپریم کورٹ سے اختیارات چھینے نہیں گئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ترمیم ہوچکی ہے، اس کے مطابق آئینی بینچ بن چکا ہے، آپ چاہ رہے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کو ہمیں پہلے معطل کرنا پڑے گا، 191 اے کو کیسے بائی پاس کریں گے؟
وکیل شبر رضا رضوی نے جواب دیا کہ 191 (اے) کو آئین کی دیگر شقوں سے ملا کر پڑھنا ہوگا، آرٹیکل 191 (اے) سے سپریم کورٹ کا 184 (تھری) کا اختیار ختم نہیں ہوگیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 184 (تھری) آرٹیکل 191 (اے) سے مستثنیٰ ہے، آرٹیکل 191 (اے) کے تحت 184 (تھری) کا اختیار آئینی بینچ کو منتقل ہوچکا ہے، 191 (اے) میں اس بات کا صاف ذکر موجود ہے کہ 184 (تھری) کا اختیار آئینی بینچ کو دیا گیا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ یہاں بینچ کے اختیارات کا سوال ہے ہی نہیں، سوال یہ ہے کہ غیر آئینی بینچ ججز کو آئینی بینچ کا حصہ کیسے بنایا جائے؟
وکیل شبر رضوی نے موقف اپنایا کہ آپ کے پاس دو عہدے ہیں، آپ سپریم کورٹ بھی ہیں اور آئینی بینچ بھی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ریگولر بینچ اور آئینی بینچ دونوں ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں، کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ آئینی بینچ سپریم کورٹ سے اوپر ہے یا نیچے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بینچز کا اختیار نہیں، فل کورٹ کا ہے، یعنی ریگولر بینچز آئینی معاملات نہیں سن سکتے لیکن فل کورٹ میں تمام ججز بیٹھ کر آئینی معاملات سن سکتے ہیں؟
وکیل شبر رضا رضوی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار انس احمد کے وکیل ڈاکٹر عدنان خان روسٹرم پر آئے اور فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بارہا دوہرایا جا چکا ہے کہ فل کورٹ بینچز سے الگ ہے، بینچ تشکیل دیا جاتا ہے، فل کورٹ تشکیل نہیں دیا جاتا، بینچ فل کورٹ کا ہی حصہ ہوتا ہے لیکن فل کورٹ ایک مستقل باڈی ہوتی ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ فل کورٹ کا وجود پہلے سے ہی ہے، وہاں بس معاملہ ریفر کرنا ہے؟
وکیل عدنان خان نے کہا کہ بالکل، فل کورٹ ہمیشہ موجود رہتا ہے، وکیل عدنان خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ بنانے میں میرے حریف کا غالبانہ کردار ہے۔
اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئےکہ چلیں آج اس پر بھی بات کرلیتے ہیں، بار بار یہ معاملہ آتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہمارا تحمل دیکھیے، ہم مسلسل بیٹھے یہاں جھوٹ سن رہے ہیں، بتائیے بینچز کی تشکیل میں ان کا کیا غالبانہ کردار ہے؟
وکیل عدنان خان نے موقف اپنایا کہ ہمیں اس بینچ میں شامل کسی جج پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، تاہم میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ آئینی بینچز کی تشکیل میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے۔
مزید کہا کہ آخری گزارش یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی اجتماعی دانش کو پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کو پرکھنے دیں، دوران سماعت وکیل عدنان خان نے دلائل مکمل کرلیے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
پس منظر
یاد رہے کہ 21 اکتوبر 2024 کو ایوان بالا کے بعد 26 ویں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہو گیا تھا۔
جس کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سینیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھے، تاہم 22 اکتوبر 2024 کو چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اگلا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔
آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ ترامیم آرٹیکل 175-اے میں کی گئی تھیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے عمل سے متعلق ہے۔
واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ میں اس سے قبل بھی درخواست دائر کی گئی تھیں، جس میں اس ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔












لائیو ٹی وی