خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا کوئی امکان نہیں، فیصل کریم کنڈی

شائع October 24, 2025
گورنر نے مزید کہا کہ صوبہ مزید سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
گورنر نے مزید کہا کہ صوبہ مزید سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں گورنر راج کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت معمول کے مطابق کام کر رہی ہے اور فی الحال اس حوالے سے کسی اقدام کی ضرورت نہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں گورنر راج کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے جمعرات کو کہا کہ اُن کی وزیر اعلیٰ محمد سہیل آفریدی سے ملاقات مثبت رہی جس میں صوبے کے مسائل، خاص طور پر ضم شدہ قبائلی اضلاع اور ان کے حقوق پر بات چیت ہوئی۔

فیصل کریم کنڈی نے ڈیرہ اسمٰعیل خان اور جنوبی وزیرستان کے صحافیوں سے گورنر ہاؤس میں ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال گورنر راج کا کوئی امکان نہیں کیونکہ صوبائی حکومت معمول کے مطابق کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں سیاسی اتحادوں اور حکمتِ عملی کی وجوہات کی بنا پر وزرائے اعلیٰ تبدیل کیے گئے، لیکن اس بار حکمران جماعت نے اپنے نامزد وزیراعلیٰ کو کرپشن اور نااہلی کے الزامات کے باعث ہٹایا ہے۔

گورنر نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی برطرفی کی اصل وجہ چند دنوں میں ظاہر کر دی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال گورنر راج کا کوئی امکان نہیں اور صوبائی حکومت معمول کے مطابق کام کر رہی ہے۔

فیصل کریم کنڈی نے سابق وزیراعلیٰ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد صوبے میں امن و امان کی صورتحال بگڑ گئی، حکومتی امور متاثر ہوئے، حتیٰ کہ یونیورسٹی کے اساتذہ بھی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر سڑکوں پر نکل آئے۔

انہوں نے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبہ اپنے وسائل پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے، جس کے باعث وہ وفاق پر انحصار کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کھیلوں کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، جب کہ پشاور کا ارباب نیاز اسٹیڈیم 2017 سے تاحال نامکمل ہے۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبے کی آبادی اور رقبہ دونوں بڑھ چکے ہیں، لیکن نیا این ایف سی ایوارڈ ابھی تک جاری نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا صوبہ ملک میں سب سے سستی بجلی پیدا کرتا ہے اور روزانہ 50 ہزار بیرل سے زائد تیل پیدا کرتا ہے، مگر عوام کو بجلی اور پانی کی سہولت میسر نہیں۔

گورنر کے مطابق ضم شدہ قبائلی اضلاع میں اب تک سول بالادستی قائم نہیں ہوئی، لہٰذا نئے وزیراعلیٰ کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

سابق وزیراعلیٰ کے افغان حکمرانوں سے بات کرنے کے ارادے پر ردعمل دیتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ایسے معاملات صوبوں کا نہیں بلکہ وفاق کا کام ہوتے ہیں اور یہ بات چیت وزارتِ خارجہ یا وزارتِ داخلہ کے ذریعے ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نئے وزیراعلیٰ کو کابینہ تشکیل دینے کے لیے وقت دیا جانا چاہیے، ہمارا صوبہ دہشت گردی اور انتظامی مسائل کا شکار ہے، اس لیے ایک مختصر مگر مؤثر کابینہ تشکیل دی جانی چاہیے۔

گورنر نے مزید کہا کہ صوبہ مزید سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو افغان مہاجرین کی واپسی کے مسئلے پر وزیراعظم کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ صوبے کے حقوق کے لیے وفاق کے سامنے بھرپور آواز اٹھائیں گے تاکہ امن، خوشحالی اور ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔

گورنر نے بتایا کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے مجوزہ منصوبے کا سروے مکمل ہو چکا ہے اور نومبر تک اس پر پیش رفت متوقع ہے۔

فیصل کریم کنڈی کے مطابق چشمہ لفٹ کینال منصوبہ چھ مراحل میں مکمل ہوگا، ڈیرہ، ٹانک اور وزیرستان میں 25 نئے نادرا مراکز قائم کیے جا رہے ہیں، جب کہ پنیالہ میں جلد پاسپورٹ کے لیے ایک نیا کاؤنٹر بھی کھولا جائے گا۔

وانا یونین آف جرنلسٹس کے وفد سے ملاقات میں گورنر نے کہا کہ حکومت قبائلی اضلاع، خاص طور پر وزیرستان میں، ترقیاتی کاموں کی رفتار بڑھانے کے لیے پُرعزم ہے تاکہ مقامی لوگوں کو بہتر سہولیات دی جا سکیں اور علاقے کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔

وفد نے صوبے کے سیاسی و انتظامی مسائل، ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی منصوبوں اور انگور اڈہ بارڈر کراسنگ سے متعلق سرحدی امور پر روشنی ڈالی۔

فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں حکومت کی موجودہ حالت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر سرکاری محکموں کی کارکردگی کمزور ہو گئی ہے اور صوبائی ادارے انتظامی طور پر مفلوج نظر آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ مشکل دور سے گزر رہا ہے، اگر بدانتظامی جاری رہی تو انہیں خدشہ ہے کہ خیبر پختونخوا ترقی کے لحاظ سے بلوچستان سے بھی پیچھے رہ جائے گا۔

گورنر نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع کے عوام کو اب تک بنیادی سہولتیں میسر نہیں، حالانکہ حکومت نے مساوی ترقی اور شمولیت کے وعدے کیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کے امور کی نگرانی کے لیے ایک علیحدہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری تعینات کیا جانا چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025