اسلام آباد: اے ایس پی کی پراسرار موت کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل
اسلام آباد میں نامعلوم حالات میں گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) عدیل اکبر کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کے ترجمان نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ کمیٹی میں ڈپٹی انسپکٹرز جنرل (ڈی آئی جیز) پولیس شامل ہیں اور اس کے سربراہ اسلام آباد سیف سٹی اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز ہارون جوئیہ ہیں۔ دیگر ارکان میں ڈی آئی جی آپریشنز جواد طارق اور ڈی آئی جی سیکیورٹی عتیق طاہر شامل ہیں۔
یہ کمیٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) اسلام آباد کی ہدایت پر بنائی گئی ہے اور کمیٹی کو 48 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
کمیٹی کو سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) انڈسٹریل ایریا زون کے طور پر خدمات انجام دینے والے اے ایس پی عدیل اکبر کی موت سے متعلق حقائق کا تعین کرنے کا کام سونپا گیا ہے، کہ آیا ان کی موت حادثہ تھی، خودکشی یا قتل تھا، ساتھ ہی کمیٹی ان کی موت کی ممکنہ وجوہات اور محرکات کی نشاندہی کرے گی۔
پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’ڈان‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی ایک ڈاکٹر کو ان کے سوشل میڈیا اور پریس بیانات کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے بھی طلب کرے گی، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اے ایس پی نے پمز اور ان کے نجی کلینک میں ان سے ملاقات کی تھی اور ذاتی معلومات شیئر کی تھیں۔
افسران کے مطابق عدیل اکبر، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جا رہے تھے اور انہوں نے ایک افسر سے بات کی جن سے وہ ملاقات کرنے والے تھے۔
تاہم، افسر نے انہیں بتایا کہ وہ دفتر میں نہیں ہیں، جس کے بعد عدیل اکبر نے اپنے ڈرائیور کو دفتر خارجہ کے قریب یو ٹرن لینے کو کہا۔
دریں اثنا، مرحوم افسر کے آپریٹر نے انہیں بتایا کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) کے ایک افسر ان سے بات کرنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے پیغام بھیجا ہے۔ عدیل اکبر نے آخری بات پی اے ایس افسر سے پیشہ ورانہ معاملے کے حوالے سے کی اور کہا کہ وہ اسٹیشن ہاؤس افسر سے اس بارے میں پوچھیں گے۔
افسران نے بتایا کہ مرحوم افسر کو حال ہی میں بلوچستان سے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا اور انہوں نے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ایک ہفتہ قبل، انہیں ایک نئی سرکاری گاڑی ملی تھی اور اس کی کھڑکیوں کو مکمل طور پر رنگ دیا گیا تھا۔
انہوں نے سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے عملے کو جاری کیے گئے سرکاری ہتھیار کے بارے میں بھی دریافت کیا تھا۔ ان کے آپریٹر نے انہیں بتایا کہ اس کے پاس ایس ایم جی (سب مشین گن) ہے، جسے عدیل اکبر نے دکھانے کو کہا۔
آپریٹر نے میگزین نکال لیا اور افسر کو دینے سے پہلے چیمبر چیک کیا تھا۔ عدیل اکبر نے پھر میگزین اور گولیوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا۔ آپریٹر نے جواب دیا کہ اس کے پاس 50 گولیاں ہیں اور ان کی درخواست پر میگزین انہیں دے دیا۔
تھوڑی دیر بعد جب گاڑی سرینا ہوٹل انڈر پاس کے قریب جناح اسکوائر پر پہنچی تو ڈرائیور اور آپریٹر نے گولی چلنے کی آواز سنی۔ انہوں نے عدیل اکبر کو اپنی سیٹ پر گرا ہوا پایا جن کے ماتھے پر گولی لگی تھی۔
آپریٹر نے فوری طور پر پولیس کمیونیکیشن کو مطلع کرتے ہوئے کہا کہ ’ایس پی سٹی نے ہم سے ہتھیار لے کر سرینا کے قریب خود کو گولی مار لی۔‘
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی ایک ٹیم نے بعد میں جائے وقوع کا دورہ کیا، گاڑی اور ہتھیار کا معائنہ کیا اور نمونے اکٹھے کیے۔ گاڑی سے ان کا موبائل فون برآمد کیا گیا اور اسے فرانزک جانچ کے لیے ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔
عدیل اکبر کو حال ہی میں فلبرائٹ اسکالرشپ کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا اور انہیں 6 اکتوبر کو آفیشل خط موصول ہوا تھا۔ انہیں جمعہ (24 اکتوبر) کو ٹوفل (غیر ملکی زبان کے طور پر انگریزی کا ٹیسٹ) کے لیے حاضر ہونا تھا۔
افسر کے ڈرائیور اور آپریٹر کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے اور انہیں I-9 میں پولیس کی عمارت میں رکھا گیا ہے۔
یہ واقعہ اب تک یومیہ ڈائری سمیت کسی بھی پولیس ریکارڈ میں درج نہیں ہوا۔ کمیٹی کی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں مزید قانونی کارروائی کی جائے گی۔
پولیس افسران کے مطابق واقعہ حادثاتی معلوم ہوتا ہے کیونکہ عدیل اکبر نے اپنی موت سے کچھ دیر قبل اپنی ترقی کے حوالے سے ایک افسر سے ملاقات کرنی تھی۔ مبینہ طور پر وہ اپنی پروموشن کے بارے میں فکر مند تھے لیکن وہ فلبرائٹ اسکالرشپ کے لیے بھی سرگرم تھے، انہوں نے اپنا ٹوفل ٹیسٹ شیڈول کیا تھا اور انہوں نے تصدیق کے لیے اپنی تعلیمی ڈگریاں بھیجی تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے کیریئر اور ذاتی ترقی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، جس میں خودکشی کے ارادے کی کوئی علامت نہیں تھی۔
انہوں نے واقعے سے چند منٹ قبل پی اے ایس افسر سے بھی معمول کے مطابق بات کی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ جب بندوق بردار نے انہیں ایس ایم جی سونپی تو عدیل اکبر نے عام حفاظتی طریقہ کار پر عمل کیا تھا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ چیمبر میں کوئی گولی نہ ہو۔
افسران نے کہا کہ ’اس بات کا امکان ہے کہ میگزین ڈالتے ہوئے اور ہتھیار کو سیدھا رکھتے ہوئے، گولی غلطی سے چل گئی۔‘
بندوق کی گولی کا زاویہ ابرو کے درمیان 65 ڈگری پر ناپا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس ایم جی کے ذریعے خودکشی کرنا انتہائی مشکل ہے، کیونکہ لوگ عام طور پر ایسے ہتھیاروں کو ٹھوڑی کے نیچے رکھتے ہیں۔
افسران نے کہا کہ اگرچہ شواہد حادثاتی طور پر گولی چلنے کی نشاندہی کرتے ہیں، تاہم دیگر امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا تفتیش جاری ہے۔












لائیو ٹی وی