دی تاج اسٹوری: تاریخ پر شب خون مارنے کی ایک اور مذموم کوشش

شائع November 3, 2025

وہ 19 نومبر 2023ء کا دن تھا جب کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں بھارت کو آسٹریلیا کے ہاتھوں عبرت ناک شکست ہوئی تھی۔

اسے قدرت کی ستم ظریقی ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس اسٹیڈیم میں بھارت کو شکست ہوئی، وہ گجرات میں واقع تھا اور اس کا نام نریندر مودی اسٹیڈیم تھا۔ وہی نریندر مودی جنہیں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے گجرات سانحے کے بعد نریندرمودی کی انتہاپسندانہ سیاست نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔ وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ سے ملک کے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچے۔ اس عہدے کے تقاضوں کے پیش نظر انہوں نے اقلیتوں پر شب خون مارنے سے تو اجتناب برتا مگر بھارت کی تاریخ کو اپنا نیا ہدف بنا لیا۔

مسلم حکمران بالخصوص مغل غیرمقامی اور لٹیرے ٹھہرے، انہیں ظالم، جابر اور ہندو دشمن قرار دیا گیا، اُن کے مدمقابل ایسے ہیروز تراشے گئے جو تاریخ کے اوراق میں شکست خوردہ تھے۔

اس نئے بیانیے کے لیے میڈیا کو ہتھیار بنایا گیا۔ ارنب گوسوامی سے روبینہ لیاقت تک، بہت سے اینکرز اور میڈیا گروپس بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی گود میں جا بیٹھے مگر المیہ یہ رہا کہ بولی وڈ بھی اس انتہاپسندانہ سوچ کی زد میں آگیا۔

تو کیا پریش راول کی نئی فلم ‘دی تاج اسٹوری’ تاریخ مسخ کرنے کے اُسی مشن کا حصہ ہے جس پر بی جے پی کی سیاست کھڑی ہے؟

آخر تنازع کیا ہے؟

یہ فلم ہدایت کار اور اسکرپٹ رائٹر توشار امریش گوئل کی ذہنی اختراع ہے۔ جب فلم کا اعلان کیا گیا تھا تب ہی سنجیدہ حلقوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ ‘دی کشمیر فائلز’، ‘دی کیرالا اسٹوری’ اور ‘دی بنگال فائلز’ جیسی یک طرفہ پروپیگنڈا فلم ثابت ہوگی۔

پوسٹر ریلیز ہوا تو اس کی تصدیق بھی ہوگئی جہاں تاج محل کے گنبد سے بھگوان شیو کی مورتی کو نکلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

گو پوسٹر ہی متنازع تھا مگر 16 نومبر کو فلم کا ٹریلر سامنے آیا تو یہ یقین پختہ ہوگیا کہ بی جے پی حامی فلم ساز نئی بوتل میں پرانی شراب بیچنے پر بضد ہیں۔ بابری مسجد کو ڈھانے کے لیے جو شرم ناک پروپیگنڈا گھڑا گیا تھا، اسی کو بنیاد بناتے ہوئے سنیما کے پردے پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ممتاز کا مقبرہ نہیں بلکہ ایک مندر ہے۔

اس پروپیگنڈے کے لیے فلم میں مقبرے کے گنبد پر موجود کلش (ہندو دھرم کی ایک علامت)، مقبرے کے نیچے موجود 22 کمروں اور دیگر سازشی نظریات کو بنیاد بنایا گیا ہے اور اس کے لیے تاج محل ہی کے ایک گائیڈ کا کردار تراشا گیا جسے پریش راول نبھا رہے ہیں۔

پریش راول کے فکری زوال کی کہانی

بھارتی سنیما پر نظر رکھنے والے پریش راول کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ انہوں نے منفی اور مزاحیہ کرداروں کو اتنی مہارت سے نبھایا ہے کہ ایک زمانہ ان کا گرویدہ ہوگیا لیکن پھر وہ نریندر مودی کی سیاست کو دل دے بیٹھے اور ہندوتوا کے کیسری رنگ میں رنگ گئے۔ اس روشن خیال اور انسان دوست اداکار نے بطور سیاست دان مذہبی لبادہ اوڑھ کر اکثریتی طاقت کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔

آج جب وہ ‘دی تاج اسٹوری’ میں محبت کی علامت تصور کیے جانے والے تاج محل کو محبت کے بجائے نسل کشی کی علامت ٹھہراتے ہیں تو بہت سے لوگوں کو ان کا 8 برس پرانا وہ ٹوئٹ یاد آتا ہے کہ جب انہوں نے تاج محل کو متنازع بنانے کی کوششوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

جب وہ فلم میں شاہ جہان پر طنزیہ انداز میں مندر گرانے کا الزام لگاتے ہیں اور غیرجانبدار مؤرخین پر نکتہ چینی کرتے ہیں تب وہ بی جے پی کے مسلم دشمن بیانیہ کی ترویج کرتے نظر آتے ہیں۔

پریش راول کے تضادات کی کہانی یہیں تمام نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو یہ پریش راول ہی تھے جنہوں نے ‘او مائی گوڈ’ جیسی حساس اور بولڈ فلم میں کام کیا تھا۔ ایک گجراتی ناٹک پر مبنی یہ فلم بھارتی سماج میں مذہبی پیشواؤں کی بالادستی، توہم پرستی اور روایت پسندی پر گہری چوٹ کرتی ہے۔

یعنی جس اداکار نے کبھی اپنے فن کو بھارتی معاشرے میں موجود مذہبی جبر کے خلاف استعمال کیا تھا، آج وہ خود اس طاقتور گروہ کے نظریے کا پرچارک بن چکا ہے۔

اس حوالے سے مودی سرکارکے سب سے بڑے ناقد اور بھارت کے مقبول ترین یوٹیوبر، دھرو راٹھی بھی پریش راول کو آئینہ دکھانے سے نہیں چونکے۔ جوں ہی پریش راول نےفلم کا ٹریلر ٹوئٹ کیا، اس کے نیچے دھرو راٹھی نے اپنا 3 سالہ پرانا ولاگ ٹوئٹ کر دیا جس میں اس پروپیگنڈے کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔

یہ ولاگ 2022ء میں اس وقت تیار کیا گیا تھا جب الہ آباد ہائی کورٹ میں بی جے پی کے رہنما رجنیش سنگھ کی جانب سے ایک متنازع درخواست دائر کی گئی تھی۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ تاج محل کی تاریخی حقیقت جانچنے کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جائے اور تاج محل کے تہہ خانے میں موجود 22 کمروں کو کھولنے کی اجازت دی جائے۔

کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ایسے معاملات پر تحقیق محض ماہرین، مؤرخین اور اسکالرز کے سپرد ہونی چاہیے۔

دھرو راٹھی نے اپنے ولاگ میں تمام سازشی نظریات کا تفصیلی جواب دیا تھا۔ اس ویڈیو کو 2 کروڑ 50 لاکھ ویوز ملے ہیں لیکن بی جے پی کی جانب جھکاؤ رکھنے والے فلم پروڈیوسرز نے 2025ء میں پھر اس پروپیگنڈا میں روح پھونکنے کی کوشش کی۔

اس تنازع کی تاریخ اور حقائق کیا ہیں؟

فلم ‘دی تاج اسٹوری’ میں جو دعوے کیے گئے ہیں، وہ نئے نہیں۔ اسے شیو مندر قرار دینے کے دعوے کی بازگشت پرانی ہے۔ ماضی میں بھی ایسی درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔ البتہ اس سازشی نظریے کی کڑیاں پی این اوک نامی ایک صاحب سے جا ملتی ہیں جو پیشے کے اعتبار سے تھے تو وکیل مگر خود کو محقق ٹھہراتے تھے۔

اُن کی تحقیق اس خیال کے گرد گھومتی تھی کہ کبھی سناتن دھرم اور بھارت دنیا کا مرکز ہوا کرتا تھا، تمام مذاہب اور علوم یہیں سے پھوٹے ہیں۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارت میں موجود مغل آرکیٹیکٹ درحقیقت ہندو راجاؤں اور ماہرین تعمیرات کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جنہیں با زور طاقت ہتھیا لیا گیا۔ 1989ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب تاج محل: دی ٹرو اسٹوری میں وہ اس مقبرے کو ’تیجو مہالیہ’ نامی مندر قرار دیتے ہیں۔

فلم ‘دی تاج اسٹوری’ پی این اوک کے اسی دعوے کے گرد گھومتی ہے۔ اس دعوے کو بھی موضوع بنایا گیا ہے کہ اس عمارت کو 11ویں صدی میں راجپورت راجا پرماردیو نے تعمیر کیا تھا۔ 17ویں صدی میں یہ راجا جے سنگھ کی ملکیت تھی جسے 70ویں صدی میں شاہ جہان نے جبراً ہتھیا لیا گیا۔

مغل تعمیرات ایک عرصے سے ہندو انتہاپسندوں کی نظروں میں کھٹک رہی ہیں، کبھی انہیں حملہ آوروں کی یادگار قرار دیا جاتا ہے، کبھی مندر ٹھہرایا جاتا ہے۔ تاج محل کا بھی یہی معاملہ ہے۔

گو اِن سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے اپنے تئیں شاہ جہان کے سرکاری مؤرخ عبدالحمید لاہوری اور تاج محل کے معمار استاد احمد لاہوری کو اُن کی مسند سے بے دخل کر چکے ہیں۔ البتہ غیر جانبدار محققین جیسے پروفیسر آر ناتھ، رعنا صفوی، ڈاکٹر روچیکا شرما، کے کے محمد جیسے مؤرخین کا کام اِس سازشی نظریے کو رد کرتا ہے۔

ماضی قریب میں ’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘ کے افسران میڈیا کو دیے جانے والے بیانات میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ 22 کمروں کا سازشی نظریہ محض ڈھکوسلہ ہے۔

دراصل تاج محل کی عمارت ایک بڑے چوکور چبوترے پر کھڑی ہے، اس چبوترے کے نیچے موجود ہال نما ڈھانچہ طویل راہداری اور محرابوں پر مشتمل ہے جو چبوترے کو بنیاد یا سہارا فراہم کرتا ہے اور اس طرح کا ڈیزائن ہمایوں اور نواب صفدر جنگ کے مقبرے میں بھی دکھائی دیتا ہے۔

2017ء آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی جانب سے ان کمروں کی تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی واضح کیا گیا کہ ان کمروں کو اس لیے بند رکھا گیا ہے کیونکہ ان میں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے کچھ بھی نہیں۔ مزید یہ کہ یہ حصہ مستقل بند نہیں، عملہ وہاں صفائی کرتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی ان کمروں کی مرمت اور بحالی کا کام بھی جاری رہتا ہے۔

واضح رہے کہ 2015ء میں بھی چند وکلا کی جانب سے اس مقبرے کو مندر قرار دینے کی درخواست دائر ہوئی تھی۔ اس موقع پر بھی حکومت اور متعلقہ اداروں نے ان دعویٰ کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اس کے مندر ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

محققین تاج محل کی زمین راجا جے سنگھ سے ہتھیانے کے دعوے کو بھی رد کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ جہان اور راجا جے سنگھ کے درمیان دوستانہ روابط تھے۔ وہ اپنی زمین تحفے میں دینا چاہتے تھے لیکن شاہ جہان نے اس زمین کے عوض انہیں 4 حویلیاں دینے کا فرمان جاری کیا۔ یہ فرمان آج بھی جے پور کے سٹی پیلس میوزیم میں موجود ہے۔

الغرض فلم میں کیے جانے والے تمام تر دعوے ماضی میں تحقیقی اور تاریخی بنیادوں پر رد کیے جاچکے ہیں۔ فلم میں متبادل نظریہ سے متعلق بھی چند دلائل اور حوالے پیش کیے گئے ہیں لیکن انہیں آثار قدیمہ اور تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنا ابھی دور ہے۔

فلم کا تجزیہ

گو فلم میں پریش راول کے علاوہ بھی کچھ معروف چہرے ہیں مگر ان کے کردار سپاٹ اور یک رخی ہیں۔ فلم اسی پروپیگنڈا سوچ پر مبنی ہے جس کے تحت ‘دی بنگال فائلز’ جیسی فلموں میں مسلم اقلیت کومذہبی اور سیاسی طور پر طاقتور،جابر، پُرتشدد، سازشی اور ظالم دکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی ہندو مسلم خلیج کو مزید بڑھاوا دیا گیا ہے۔

فلم بھارت کے روشن خیال مؤرخین اور ماہرین تعلیم کو جانبدار بلکہ جاہل قرار دیتی ہےاور بھارت کی سیکولر سوچ کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔

سب سے کمزور حصہ فلم کے مکالمے ہیں جو اکثر جگہ سطحی محسوس ہوتے ہیں۔ پریش راول کے کورٹ روم میں ادا کردہ کئی مکالمے نہ صرف کمزور بلکہ تضحیک آمیز ہیں۔ دلائل یک طرفہ محسوس ہوتے ہیں۔ جب پریش راول بہ طور اداکار کوئی کمال نہیں کرسکے تو باقی فنکاروں کی اداکاری پر کیا بات کی جائے۔

فلم کے کئی حصوں میں مصنوعی پن عیاں ہے۔ جہاں تک پلاٹ کی بات ہے تو یہ بھی روایتی اور بڑی حد تک متوقع ہے جو کئی جگہ بیزار کن محسوس ہوتا ہے۔

ایک مقبول سازشی تھیوری کو موضوع بنانے کے باوجود فلم باکس آفس پر کوئی خاص کمال نہیں دکھا سکی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اس نوع کی فلموں میں اب ناظرین کی دلچسپی ختم ہوچکی ہے۔

صائمہ اقبال

لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 11 نومبر 2025
کارٹون : 10 نومبر 2025