27ویں آئینی ترمیم سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود ہونے کا خدشہ، قانونی ماہرین کا انتباہ
قانونی ماہرین نے انتباہ دیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود ہونے کا خدشہ ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں پیش کیے گئے 27ویں آئینی ترمیمی بل کے ابتدائی مسودے پر قانونی ماہرین نے تشویش ظاہر کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کے بعد سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت نہیں رہے گی بلکہ یہ حیثیت ایک نئی وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کو حاصل ہو جائے گی۔
دوسری طرف ترمیم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ نئی عدالت سے عدالتی نظام بہتر ہوگا، مقدمات جلد نمٹیں گے اور آئینی و اپیلی کیسز الگ الگ عدالتوں میں جائیں گے، جس سے انصاف کا عمل تیز اور واضح ہوگا۔
ایک سینئر وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات محدود ہو کر صرف عام، قانونی اور فوجداری اپیلوں تک رہ جائیں گے، جس سے وہ ایک عام عدالت کی طرح بن جائے گی۔
ان کے مطابق حکومت آئندہ قوانین، جیسے الیکشن ایکٹ 2017 میں تبدیلی کر کے، اپیلوں کو سپریم کورٹ کے بجائے ایف سی سی میں بھیج سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 175 میں مجوزہ ترمیم عدلیہ کے موجودہ نظام کو تقریباً ختم کر دے گی کیونکہ سپریم کورٹ کا کردار بہت کم رہ جائے گا۔
سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کے مطابق اس ترمیمی پیکج کے دو بڑے حصے ہیں۔
پہلا، آئین میں ایک نیا باب (چیپٹر 1A) شامل کیا جا رہا ہے، جو حکومت کو اعلیٰ عدلیہ پر زیادہ انتظامی کنٹرول دے گا، ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کے اختیارات بڑھائے گا اور ایف سی سی کو سپریم کورٹ سے زیادہ طاقتور بنائے گا۔
دوسرا، آرٹیکل 243 میں تبدیلی ہے، جس کے مطابق آرمی چیف کو چیف آف دی ڈیفنس فورسز کا عہدہ دیا جائے گا اور انہیں فیلڈ مارشل کا درجہ تاحیات حاصل ہوگا۔
ایک اور وکیل نے کہا کہ اگرچہ دو عدالتوں کے سربراہوں میں سینئر ترین چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ہوں گے، لیکن باقی تمام اختیارات ایف سی سی کے پاس ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ آئین میں جہاں بھی دونوں عدالتوں کے ججوں کے حلف کا ذکر ہے، وہاں ایف سی سی کا نام پہلے آتا ہے، جس سے ظاہر ہے کہ یہ عدالت درجہ بندی میں سپریم کورٹ سے اوپر ہوگی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئی ترمیم کے مطابق ایف سی سی کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی، جب کہ سپریم کورٹ کے جج 65 سال میں ریٹائر ہوں گے۔
عدالتی نظام میں بڑی تبدیلی
اس کے برعکس سینئر وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر نے اس ترمیم کو خوش آئند قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ اصلاحات انصاف کے نظام میں ایک اہم اور دیر سے ہونے والی تبدیلی ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس ترمیم کے بعد دو الگ الگ اعلیٰ عدالتیں ہوں گی، ایک موجودہ سپریم کورٹ جو اپیلوں سے متعلق مقدمات سنے گی اور دوسری نئی ایف سی سی جو آئینی تشریحات اور حکومتوں کے درمیان تنازعات کے معاملات دیکھے گی۔
ان کے مطابق یہ نظام ان ترقی یافتہ ممالک سے ملتا جلتا ہوگا جہاں آئینی اور اپیلی عدالتیں الگ ہوتی ہیں، جس سے عدالتی کام مزید مؤثر اور شفاف ہو جاتا ہے۔
احسان احمد کھوکھر نے کہا کہ ان اصلاحات سے اعلیٰ عدلیہ میں سیاست کا اثر کم ہوگا، مقدمات جلد نمٹیں گے اور عدالتوں کے دائرہ کار میں الجھن نہیں رہے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آرٹیکل 243 میں کی گئی ترمیم جدید جمہوری اصولوں کے مطابق ہے، جس کے تحت ایک متحدہ فوجی مشاورتی نظام ہوگا جو وزیراعظم، وزیر دفاع اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو جواب دہ ہوگا۔
اسی دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر ہارون الرشید نے ایف سی سی کے قیام کی حمایت کی اور کہا کہ وہ پاکستان بار کونسل اور دیگر وکلا تنظیموں کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک آل پاکستان لائرز کنونشن بلانے پر غور کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے کہ ملک میں اتفاق رائے کے ساتھ آئین میں ترمیم کر کے ایف سی سی کے قیام کی سمت قدم بڑھایا جا رہا ہے۔












لائیو ٹی وی