اسرائیل نے غزہ امن فورس میں ترک فوجیوں کی شمولیت کو خارج از امکان قرار دے دیا
اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ ترک فوجی غزہ میں کثیر القومی فورس کا حصہ بن کر اسرائیلی فوج کی جگہ نہیں لیں گے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ترجمان شوش بیڈروسیان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ترک فوج غزہ میں قدم نہیں رکھے گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2 سالہ جنگ بندی منصوبے کے تحت ایک عارضی بین الاقوامی استحکام فورس بنائی جائے گی جو بتدریج غزہ کی سیکیورٹی اسرائیلی فوج سے سنبھالے گی، اس فورس کے قیام کے لیے ابھی کام جاری ہے اور کئی ممالک چاہتے ہیں کہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مینڈیٹ حاصل ہو۔
جب اسرائیل کی جانب سے ترک فورسز کے غزہ میں تعینات نہ ہونے کے اعتراضات کے بارے میں پوچھا گیا، تو ترکیہ میں امریکا کے سفیر ٹام بارک نے مناما سیکیورٹی کانفرنس میں کہا کہ ترکیہ اس فورس میں حصہ لے گا، نائب صدر جے ڈی وینس نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انقرہ کے لیے ایک ’مثبت کردار‘ ہو سکتا ہے، لیکن واشنگٹن اسرائیل پر کسی بھی غیر ملکی فوجی کی تعیناتی کے لیے دباؤ نہیں ڈالے گا۔
اس کے علاوہ، اسرائیل نے اتوار کو کہا کہ اسے 2014 کی غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والے افسر ہدار گولڈن کی باقیات موصول ہو گئی ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے مطابق ’شناختی عمل مکمل ہونے کے بعد اسرائیلی فوج کے نمائندوں نے ہلاک ہونے والے قیدی لیفٹیننٹ ہدار گولڈن کے اہل خانہ کو مطلع کیا کہ ان کا پیارا اسرائیل واپس آچکا ہے اور اس کی شناخت مکمل ہو گئی ہے‘۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے مطابق، ریڈ کراس نے غزہ میں ہدار گولڈن کا تابوت اسرائیلی فوج اور شِن بیٹ کے اہلکاروں کے حوالے کیا۔
ہدار گولڈن کی لاش 2014 سے غزہ میں تھی، اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی کہ اسرائیل نے حماس اور ریڈ کراس کے اہلکاروں کو رفح کے زیرِ کنٹرول علاقے میں تلاش کی اجازت دی تاکہ گولڈن کی باقیات مل سکیں۔
2014 کی 6 ہفتوں کی جنگ میں ایک اور اسرائیلی فوجی اورون شاؤل بھی ہلاک ہوا تھا، جس کی لاش رواں سال برآمد ہوئی۔
23 سالہ ہدار گولڈن ایک اسرائیلی یونٹ کا حصہ تھا جسے حماس کی سرنگوں کو تلاش اور تباہ کرنے کا کام سونپا گیا تھا، وہ یکم اگست 2014 کو ہلاک ہوا، جب 72 گھنٹے کی انسانی ہمدردی کی جنگ بندی چند گھنٹوں پہلے نافذ ہوئی تھی، اسرائیلی فوج نے الزام لگایا کہ حماس کے جنگجوؤں نے اس کی ٹیم پر حملہ کیا اور اس کی لاش قبضے میں لے لی۔
اسرائیل نے گولڈن کو ان ہلاک شدہ اسرائیلی قیدیوں میں شامل کیا تھا جن کی باقیات موجودہ امریکی ثالثی شدہ جنگ بندی معاہدے کے تحت واپس لائی جانی ہیں۔
ہدار گولڈن کے والد نے کہا کہ موجودہ جنگ میں حقیقی فتح تب حاصل ہوگی جب تمام قیدی واپس لائے جائیں گے، انہوں نے کہا کہ ’جب ہم اپنے فوجیوں کے لیے لڑتے ہیں تو ہم کامیاب ہوتے ہیں، فتح کا مطلب ہے قیدیوں اور فوجیوں کو اسرائیل واپس لانا‘۔
معاہدے کے آغاز میں حماس کے پاس 20 زندہ قیدی اور 28 ہلاک شدہ قیدیوں کی باقیات تھیں، اس کے بعد تمام زندہ اسرائیلی قیدی رہا کیے گئے اور 23 ہلاک شدہ قیدیوں کی باقیات واپس کی گئیں، اسرائیل نے بدلے میں تقریباً 2 ہزار فلسطینی رہا کیے اور غزہ میں شہید ہونے والے حماس کے سیکڑوں ارکان کی لاشیں واپس کیں۔












لائیو ٹی وی