بنگلہ دیشی وزیر کا سارک کو دوبارہ فعال کرنے، ماحولیاتی فنڈنگ میں اضافے پر زور
مختلف ممالک بیلم (برازیل) میں ہونے والی ’کاپ 30‘ کانفرنس میں ماحولیاتی مالیات اور اہداف پر بات چیت کر رہے ہیں، ایسے میں ’ڈان‘ نے ماہرین سے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے مذاکرات سے متعلق عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کے کیا جوابات ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق خصوصی گفتگو میں بنگلہ دیش کی وزیر ماحولیات رضوانہ حسن نے ماحولیاتی مذاکرات میں درپیش رکاوٹوں، ترقی پذیر ممالک کے لیے ناکافی ماحولیاتی مالی امداد اور علاقائی سطح پر مقامی حل تلاش کرنے کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔
اسلام آباد میں منعقدہ ایس ڈی پی آئی کی 28ویں سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے رضوانہ حسن نے سارک کو دوبارہ فعال کرنے، ماحولیاتی مالیات میں اضافہ کرنے اور کاربن اخراج میں کمی کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
سوال: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ سارک جیسے علاقائی فورمز ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں؟
رضوانہ حسن کا کہنا تھا کہ میری رائے میں سارک میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، چاہے وہ خطے کے مختلف ممالک کے ترقیاتی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے حوالے سے ہو، یا مشترکہ وسائل کو استعمال کرنے کے حوالے سے، یا پھر ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم بہت سے مشترکہ قدرتی وسائل رکھتے ہیں جیسے پانی، اگر ماحولیاتی تبدیلی کے تناظر میں سارک کے ممالک مشترکہ دریا یا پانی کے انتظام کی ایک علاقائی پالیسی پر متفق ہو جائیں جو ماحولیاتی لحاظ سے حساس ہو، تو یہ ماحولیاتی موافقت کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ البتہ کچھ ممالک سارک کے اجلاسوں میں دیگر کے مقابلے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے، لہٰذا جب تک سب ممالک فعال نہیں ہوتے، جو ممالک تعاون کے لیے تیار ہیں، انہیں آگے بڑھنا چاہیے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بنگلہ دیش علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر کام کر رہا ہے؟
رضوانہ حسن نے جواب دیا کہ جی ہاں، بنگلہ دیش نیپال اور بھوٹان کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے پر قریبی تعاون کر رہا ہے، کیونکہ یہ تینوں سارک ممالک تقریباً ایک ہی وقت میں درمیانی آمدنی والے ممالک بننے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کلائمیٹ فنڈ تک رسائی میں ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہوگا، اسی لیے ہم نے ان دونوں ممالک سے رابطے شروع کر دیے ہیں، تاکہ ہم کلائمیٹ مذاکراتی فورمز میں ایک مشترکہ موقف اختیار کر سکیں اور کلائمیٹ فنڈ، رعایتی گرانٹس اور ٹیکنالوجی معاونت کے حصول میں تعاون کر سکیں۔
ڈان نے پوچھا کہ ترقی یافتہ ممالک (Global North) اخراج میں کمی پر زور دے رہے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک (Global South) مالی امداد کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا کوئی درمیانی راستہ ممکن ہے؟
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ اخراج میں کمی ہمارا اختیار ہے، ذمہ داری نہیں، اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) اور کیوٹو پروٹوکول کے تحت یہ لازمی نہیں تھا، اور پیرس معاہدے کے تحت بھی یہ لازمی نہیں ہے، یہ اخلاقی بنیاد فراہم کرتا ہے، لیکن عالمی سطح پر ہمارا اخراج بہت معمولی ہے۔
رضوانہ حسن نے کہا کہ تاہم عوام کے مفاد میں ہمیں اخراج کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہوا صاف رہے، بہت سے محفوظ اور کم لاگت والے متبادل موجود ہیں، لہٰذا ہمیں پرانے صنعتی اور توانائی کے نظام پر قائم رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی سرمایہ کاری درکار ضرور ہوتی ہے، مگر طویل مدت میں یہ انتہائی مؤثر اور کم خرچ ثابت ہوتی ہے، میں سمجھتی ہوں کہ مغربی ممالک کو موافقتی امداد کو اخراج کی تعمیل سے مشروط نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یو این ایف سی سی سی کا مقصد یہ نہیں تھا۔
زیادہ تر سارک ممالک کے نیشنل ڈیٹرمائنڈ کنٹری بیوشن (این ڈی سی) وعدے جزوی طور پر غیر مشروط اور جزوی طور پر مشروط ہیں۔
بنگلہ دیشی وزیر نے کہا کہ غیر مشروط اہداف پر پیش رفت ہو رہی ہے، لیکن مشروط اہداف کے لیے ہم ہی یہ شرط رکھتے ہیں کہ اگر مالی امداد دی جائے تو ہم بہتر اقدامات کر سکتے ہیں۔
ڈان نے سوال کیا کہ ماحولیاتی فنانس کی تعریف کیا ہے، خاص طور پر جب بعض ترقیاتی امداد کو بھی کلائمیٹ فنڈنگ قرار دیا جا رہا ہے؟
رضوانہ حسن نے کہا کہ ہم ایک واضح تعریف چاہتے ہیں تاکہ عام ترقیاتی امداد کو کلائمیٹ فنڈنگ کے طور پر ظاہر نہ کیا جا سکے، یو این ایف سی سی سی کے تحت جو وعدہ کیا گیا تھا، وہ نئے اور اضافی فنڈز کا تھا، لہٰذا یہ امداد واقعی نئی اور اضافی ہونی چاہیے، مزید یہ کہ ہمیں ایسی امداد قرض کی شکل میں نہیں چاہیے، کیونکہ یہ ہمارے لیے دوہری مصیبت بن جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ہم ماحولیاتی خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، اور دوسری طرف انہی خطرات کے دوران ہمیں سود سمیت قرض واپس کرنا پڑتا ہے، ہم اس صورتِ حال کے ذمہ دار نہیں ہیں، یہ ان ممالک کی غلطی ہے جو ہم پر قرض عائد کر رہے ہیں، لہٰذا کلائمیٹ فنانس میں شفافیت انتہائی ضروری ہے۔
سوال: کیا بنگلہ دیش نقصان و تلافی فنڈ تک رسائی حاصل کرنے جا رہا ہے؟
رضوانہ حسن نے کہا کہ جی ہاں، بنگلہ دیش یقیناً اس فنڈ کے لیے تجاویز جمع کروائے گا، تاہم اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بنگلہ دیش کو سالانہ 25 کروڑ ڈالر کی ضرورت صرف ماحولیاتی موافقت کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن 25 کروڑ ڈالر کا مجموعی فنڈ، جو کئی ممالک میں تقسیم کیا جائے گا، بنگلہ دیش کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا، یہ فنڈ ترقی یافتہ ممالک کے وعدوں کے مطابق بھی نہیں، یہ رقم انتہائی ناکافی ہے۔












لائیو ٹی وی