• KHI: Clear 19.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.6°C
  • ISB: Cloudy 13°C
  • KHI: Clear 19.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.6°C
  • ISB: Cloudy 13°C

پاکستان میں ذیابیطس کا شکار 68 فیصد ملازمین کو دفاتر میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے، تحقیق

شائع November 12, 2025
— فائل فوٹو: رائٹرز
— فائل فوٹو: رائٹرز

عالمی ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کی ایک نئی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزارنے والے دو تہائی سے زائد ملازمین کو اپنی صحت کی حالت کی وجہ سے ملازمت کی جگہ پر منفی سلوک کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ نصف سے زیادہ نے امتیازی سلوک اور بدنامی کے خوف سے اپنی نوکری چھوڑنے پر بھی غور کیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق آئی ڈی ایف کے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کا شکار 68 فیصد ملازمین نے کام کی جگہوں پر منفی تجربات کی اطلاع دی، جو تمام شریک ممالک میں سب سے زیادہ شرح ہے، اس کے بعد بھارت میں 55 فیصد اور امریکا میں 42 فیصد نے اسی نوعیت کے تجربات رپورٹ کیے۔

مزید 58 فیصد ملازمین نے کہا کہ انہوں نے اس بات پر غور کیا کہ وہ نوکری چھوڑ دیں کیونکہ ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ دفتر میں جو برتاؤ کیا جاتا ہے، وہ ناقابلِ برداشت ہے۔

آئی ڈی ایف کی نائب صدر اور نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائیبیٹیز ایجوکیٹرز آف پاکستان (این اے ڈی ای پی) کی صدر ارم غفور نے نتائج کو ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ناقابلِ دفاع ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو اپنے دفاتر میں بدنامی، تنہائی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘۔

تحقیق کے مطابق، ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریض ملازمین کو زیادہ تعصب کا سامنا ہوتا ہے، جن میں تقریباً 72 فیصد نے منفی تجربات بتائے، جب کہ ٹائپ 2 ذیابیطس والے ملازمین میں یہ شرح 41 فیصد رہی، نصف سے زائد (52 فیصد) نے بتایا کہ انہیں ذیابیطس کے انتظام کے لیے مختصر وقفے یا وقت کی اجازت نہیں دی گئی۔

مطالعے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ذیابیطس سے جڑی بدنامی ملازمین کی پیشہ ورانہ ترقی پر براہِ راست اثر ڈالتی ہے، تقریباً 37 فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ انہیں اپنی حالت کی وجہ سے تربیت یا کیریئر ڈیولپمنٹ کے مواقع سے محروم رکھا گیا۔

رپورٹ کے مطابق خوف اور خاموشی نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے، کیونکہ بیشتر ملازمین اپنی بیماری کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں، ہر 20 میں سے صرف ایک ملازم نے اپنے آجر کو اپنی تشخیص سے آگاہ کیا، ان میں سے نصف نے اعتراف کیا کہ انہوں نے امتیازی سلوک کے خوف سے یہ بات چھپائی، جب کہ تقریباً ایک تہائی کو اندیشہ تھا کہ ان کی ترقی کے مواقع محدود ہو جائیں گے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ بیشتر ملازمین ادارہ جاتی مدد کے بجائے غیر رسمی طور پر اپنے چند قریبی ساتھیوں پر انحصار کرتے ہیں، تقریباً 46 فیصد نے کہا کہ انہوں نے صرف ایک قابلِ اعتماد ساتھی کو اپنی بیماری سے آگاہ کیا، جب کہ صرف 26 فیصد نے یہ بات چند افراد تک محدود رکھی۔

آئی ڈی ایف کے مطابق، یہ ہچکچاہٹ اس بات کی علامت ہے کہ کام کی جگہوں پر نظام پر اعتماد کی کمی ہے اور ایسے جامع ماحول کی ضرورت ہے جہاں صحت کے مسائل کو کھل کر بیان کیا جا سکے۔

روزمرہ کی ذیابیطس مینجمنٹ بھی ایک چیلنج

تحقیق میں انکشاف ہوا کہ تقریباً 22 فیصد ملازمین کو دفتر میں انسولین لگانے میں جھجک محسوس ہوتی ہے، جب کہ 16 فیصد اپنے خون میں شوگر لیول چیک کرنے میں بھی بےچینی محسوس کرتے ہیں، مناسب سہولتوں یا آجر کی سمجھ بوجھ کے بغیر روزمرہ کے یہ طبی تقاضے تناؤ اور کم پیداوار کا باعث بن سکتے ہیں۔

ارم غفور نے کہا کہ کسی کو بھی اپنی بیماری چھپانے پر مجبور نہیں ہونا چاہیے، صرف اس خوف سے کہ اس کے ساتھ مختلف سلوک کیا جائے گا یا ترقی کے مواقع چھین لیے جائیں گے۔

انہوں نے زور دیا کہ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے مستقل نگہداشت درکار ہوتی ہے، اور اداروں کو اس کے جسمانی اور ذہنی اثرات کو تسلیم کرنا چاہیے، معمولی اقدامات جیسے لچکدار اوقات، پرائیویسی میں گلوکوز چیک کرنے کی اجازت، اور نگران افسران کی سمجھ داری، بہت بڑا فرق پیدا کر سکتی ہے۔

آئی ڈی ایف کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد، جو ملک کی مجموعی آبادی کا 26.7 فیصد ہیں، ذیابیطس میں مبتلا ہیں، یہ تعداد 2045 تک بڑھ کر 6 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچنے کی توقع ہے، اس کے علاوہ ملک میں 89 لاکھ افراد ایسے ہیں جن میں ذیابیطس کی تشخیص ابھی باقی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025