• KHI: Clear 17.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.8°C
  • KHI: Clear 17.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.8°C

ریاست لازمی یقینی بنائے کہ خواتین کو ان کا وراثتی حق ملے، سپریم کورٹ

شائع November 17, 2025
— فائل فوٹو: اے پی پی
— فائل فوٹو: اے پی پی

سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ ریاست کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہر پاکستانی خاتون کو وراثت میں اس کا جائز حصہ ملے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق عدالت نے خواتین کے لیے ایک ایسا نظام قائم کرنے کا بھی کہا جو انہیں یہ ’خدا کا عطا کردہ‘ حق حاصل کرنے میں مدد دے۔

عدالت کے حکم میں کہا گیا ہے کہ ’آئین اور اسلام کے واضح احکامات کے تحت ریاست پر لازم ہے کہ خواتین کے حق وراثت کو مؤثر اور بلا روک حاصل کیا جائے‘۔

یہ رائے ہفتے کو جاری کیے گئے 7 صفحات پر مشتمل جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ فیصلے میں دی گئی ہے جس میں انہوں نے 29 اگست کو سننے والے کیس کا خلاصہ بیان کیا، یہ فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ نے 13 نومبر کو جج کے عہدے سے مستعفی ہونے سے پہلے تحریر کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے بینچ نے ابرار حسین کی 3 مارچ 2023 کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل مسترد کردی، سندھ ہائی کورٹ نے 2021 میں درخواست گزار کی اپیل کو بھی خارج کر دیا تھا، جو 2019 کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھی۔

یہ کیس ابرار حسین اور ان کی بہن بی بی شاہدہ کے درمیان جائیداد کے تنازع سے متعلق تھا، شاہدہ نے مارچ 2015 میں شکایت دائر کی تھی کہ انہوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد بار بار اپنا حصہ مانگا اور بعد میں دو دیگر بہن بھائیوں نے بھی مانگا، مگر ابرار حسین نے اسے دینے سے انکار کر دیا۔

سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ ابرار حسین نے جائیداد پر مکمل قبضہ کر لیا اور دیگر قانونی وارثوں کو ان کے جائز حصے سے محروم کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ ’درخواست دہندہ (ابرار حسین) کے پاس کسی معاملے میں حقائق پر مبنی کیس نہیں تھا، پھر بھی وہ مقدمات میں اصرار کرتا رہا، جس سے اس کے بہن بھائیوں کے جائز وراثتی حقوق سے محروم رہنے کا عرصہ طول پکڑا، جو انہیں یکم جنوری 2002 کو ان کے والد کے انتقال کے وقت حاصل ہوئے تھے‘۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے پیش چیلنج صرف دیگر قانونی وارثوں کے حقوق کو روکنے اور تاخیر کرنے کی کوشش تھی، جو کہ عمل کے غلط استعمال کے مترادف ہے۔

عدالت نے کہا کہ ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے کہ ’ہر خاتون کو اپنے حق وراثت کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور بغیر تاخیر، خوف یا طویل مقدمات کے اپنے حق کا دعویٰ کرنے کے قابل بنایا جائے‘۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ریاست کو ایک ’فعال اور قابل رسائی نظام‘ قائم کرنا چاہیے جس کے ذریعے خواتین کی شناخت ہو، ان سے رابطہ کیا جائے اور انہیں ان کے قانونی حقوق حاصل کرنے میں مدد دی جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے زور دیا کہ جو لوگ دھوکا، جبر یا ناجائز اثر و رسوخ کے ذریعے خواتین سے خدا کا عطا کردہ حق چھینیں، انہیں قانون کے تحت جواب دہ بنایا جائے۔

فیصلے میں وفاقی شرعی کورٹ کے مارچ کے اہم فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ’چادر‘، ’پرچی‘ یا ’حق بخشوائی‘ جیسی رسومات جو خواتین سے وراثتی حق چھینتی ہیں، غیر اسلامی اور قانونی حیثیت سے باطل ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ حق وراثت ’انسانی قانون کی دی ہوئی رعایت نہیں بلکہ قرآن میں واضح طور پر بیان کردہ الہی حکم ہے‘، کسی کو یہ حق دینے یا روکنے سے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ یہ الہٰی ارادے کے خلاف بھی ہے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ثقافتی یا سماجی رسوم جو خواتین سے ان کے جائز وراثتی حقوق چھیننے کا سبب بننے والی ثقافتی یا سماجی علوم مبنی بر ایمان و انصاف نہیں ہیں، یہ رسوم ’جہالت کی باقیات‘ ہیں جنہیں اسلام نے ختم کرنے کی تعلیم دی، ریاست پر یہ ’مقدس آئینی فرض‘ ہے کہ وہ ایسے اعمال کو ختم کرے۔

عدالت نے مزید کہا کہ ’خواتین کے وراثتی حقوق سے چشم پوشی کرنے والا معاشرہ آئین اور اللہ کے حکم کے خلاف ہے، خواتین کے وراثتی حقوق کا تحفظ نہ کرنے والی ریاست مساوات، ایمان اور انصاف کے اصولوں کی پاسداری میں ناکام ہے‘۔

سپریم کورٹ نے ابرار حسین پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا، جو 7 دن کے اندر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کروایا جائے گا اور رقم قانونی وارثوں میں تقسیم کی جائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025