کم شرح سود کے باعث آٹو فنانسنگ 315 ارب روپے تک پہنچ گئی
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق واجب الادا آٹو لونز میں مسلسل گیارہویں ماہ بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو ستمبر کے آخر میں 305 ارب روپے سے بڑھ کر اکتوبر کے آخر تک 315 ارب 40 کروڑ روپے تک پہنچ گئے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جون 2024 میں پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد ہونے کے بعد آٹو فنانسنگ بتدریج اس ریکارڈ سطح کے قریب پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے، جو جون 2023 میں 368 ارب روپے تھی۔
شرحِ سود میں استحکام رہا یا یہ مزید کم ہوئی تو آنے والے مہینوں میں آٹو لونز کی طلب زیادہ رہنے کا امکان ہے، ساتھ ہی چھوٹی گاڑیوں، خصوصاً سوزوکی آلٹو 660 سی سی اور درآمد شدہ سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی طلب بھی اس رجحان کو تقویت دے سکتی ہے۔
نئے داخل ہونے والے ادارے اور موجودہ اسمبلرز نئے ماڈلز متعارف کرا رہے ہیں، جب کہ اسمبلرز اور بینکوں کی جانب سے پرکشش پیکجز (جن میں شرح سود 10 فیصد سے بھی کم ہے) اب تک صارفین کو بینک فنانسنگ کی طرف راغب کر رہے ہیں۔
تاہم آٹو لونز پر 30 لاکھ روپے کی موجودہ حد اعلیٰ قیمت والی گاڑیوں کی فنانسنگ کو محدود رکھتی ہے، 30 فیصد ڈاؤن پیمنٹ کی شرط اور مختصر ادائیگی مدت (ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں کے لیے 5 سال اور اس سے چھوٹی گاڑیوں کے لیے 3 سال) بھی ممکنہ خریداروں کو حوصلہ شکنی کرتی ہے۔
اسمبلرز کی درآمدات روکنے کی اپیل
3 روزہ پاکستان آٹو شو اتوار کو اختتام پذیر ہوا، جس میں مقامی طور پر تیار کی گئی گاڑیوں کی وسیع رینج اور نئے اداروں نے ماحول دوست اور جدید ٹیکنالوجیز پیش کیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان میں جلد برقی گاڑیوں (ای وی) کے شعبے میں قابلِ ذکر ترقی دیکھنے کو مل سکتی ہے، جو طویل مدتی مارکیٹ کی تبدیلی کے لیے ضروری ہے۔
اس سال کے ایونٹ میں 172 نمائش کنندگان نے حصہ لیا، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری سے تھا، ان کے ساتھ 33 چینی اور 6 ایرانی کمپنیاں بھی شریک تھیں۔
متعدد برانڈز نے نئے ماڈلز متعارف کرائے، جن میں ایم جی موٹرز، چاؤلہ گرین، چنگان پاکستان، ماسٹر چیری، کیپیٹل اسمارٹ موٹرز اور سوزوکی نے مختلف سیگمنٹس میں گاڑیاں پیش کیں۔
نئے ماڈلز اور ٹیکنالوجیز کے حوالے سے جوش و خروش کے باوجود پالیسی کے تسلسل کے حوالے سے خدشات برقرار ہیں، خصوصاً اس وقت جب حکومت آٹو پالیسی 31-2026 پر کام کر رہی ہے۔
مینوفیکچررز نے کہا کہ اگرچہ مارکیٹ کی توسیع اور نئے کھلاڑیوں کا آنا خوش آئند ہے، لیکن اس شعبے کی پائیداری اس بات پر منحصر ہے کہ نئی پالیسی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات سے کیسے نمٹے گی، جو گزشتہ چند برسوں میں نمایاں طور پر بڑھ چکی ہیں۔
انڈس موٹر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر علی اصغر جمالی نے کہا کہ اس وقت 17 عالمی آٹو موٹیو کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جنہوں نے مجموعی طور پر 5 لاکھ یونٹس کی پیداواری صلاحیت کے حامل پلانٹس قائم کیے ہیں، جس کا صرف ایک تہائی حصہ استعمال ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے باوجود استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد (جو پہلے ہی مارکیٹ کا 25 فیصد حصہ ہے) سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرتی ہے، کم پیداواری صلاحیت کے استعمال کی وجہ سے مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیاں کم مسابقتی اور صارفین کے لیے زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔
ایونٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسی پالیسیاں برقرار رکھے جو مقامی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کریں اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات کے منفی اثرات سے اس صنعت کو بچائیں۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز کے چیئرمین عثمان ملک نے کہا کہ مسئلہ مسابقت نہیں بلکہ غیر مساوی حالات ہیں، کیونکہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات اکثر ان ریگولیٹری اور مالی ذمہ داریوں سے بچ نکلتی ہیں جن کا مقامی پروڈیوسرز کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک نئی آٹو پالیسی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات کے کردار کو واضح طور پر بیان نہیں کرتی، تب تک پرانے اور نئے دونوں مینوفیکچررز غیر یقینی ماحول میں کام کرتے رہیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک واضح پالیسی فریم ورک مقامی روزگار کے تحفظ، پیداواری صلاحیت کے بہتر استعمال اور طویل مدتی سرمایہ کاری کے تسلسل کے لیے ناگزیر ہے۔












لائیو ٹی وی