’کمزور ممالک پر قابض ہوتی القاعدہ ختم نہیں ہوئی بلکہ ارتقا پا چکی ہے‘
حالیہ ویڈیو رپورٹ میں جرمنی کے سرکاری نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) نیوز نے مشاہدہ کیا کہ ’9/11 کو دو دہائیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد، القاعدہ ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس نے خود کو حالات کے مطابق ڈھال لیا ہے‘۔
یہ تشخیص دنیا کے معتبر ترین عالمی ذرائع ابلاغ جن میں وال اسٹریٹ جرنل اور الجزیرہ نمایاں ہیں، کی حالیہ رپورٹس سے تقویت پاتی ہے جن کے مطابق القاعدہ کی علاقائی شاخوں میں سے ایک تصور کی جانے والی جماعت نصرت الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) مالی کے دارالحکومت بماکو پر قبضہ کرنے کے بہت قریب ہے۔
مغربی افریقہ کے ساحلی خطے بالخصوص مالی، برکینا فاسو اور نائجر میں سرگرم جے این آئی ایم ایندھن کے ٹینکرز کی جانب سے استعمال کیے جانے والے راستوں کو بند کرکے دارالحکومت کا اقتصادی محاصرہ کررہا ہے جس کے نتیجے میں ملک عملی طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاک-افغان خطے میں اپنی اعلیٰ سے درمیانی سطح کی قیادت کی ہلاکت یا گرفتاری جو امریکا کی قیادت میں پاک-افغان، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں وسیع پیمانے پر انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کے نتیجے میں ممکن ہوئیں، کے باوجود القاعدہ ایک اہم حکمتِ عملی اختیار کرکے اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے یعنی وہ مرحلہ وار ایک مرکزی تنظیمی ڈھانچے سے غیر مرکزی نیٹ ورک میں تبدیل ہوئی ہے جس میں مختلف شاخیں سامنے آئی ہیں۔
ان شاخوں کو عملی طور پر خود مختاری دی گئی ہے جبکہ وہ القاعدہ سینٹرل (اے کیو سی) کی عمومی نظریاتی لائن کی پابندی کرتی ہیں۔ اس حکمتِ عملی میں تبدیلی نے القاعدہ کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے اور اپنی کارروائیاں جاری رکھے، چاہے اسے قیادت کے نمایاں نقصانات ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں۔
جے این آئی ایم کے علاوہ، الشباب جو القاعدہ کی ایک اور مضبوط شاخ ہے، جنوبی اور وسطی صومالیہ کے بڑے حصوں پر قابض ہے۔ یہ گروہ حال ہی میں دوبارہ اپنے قدم جما چکا ہے اور اس نے حال ہی میں 2023ء-2022ء میں صومالیہ کی حکومت کی فوجی مہم کے دوران ہونے والے بہت سے نقصانات کو ختم کرتے ہوئے علاقہ واپس لے لیا ہے۔
حال ہی میں، کئی خفیہ انتہا پسند چینلز جیسے از-زالقاہ فاؤنڈیشن جو جے این آئی ایم کے سرکاری میڈیا گروپ کے پروپیگنڈے کا اشتراک کرتے ہیں، نے ایک مضبوط پیش گوئی کے ساتھ ایک ہی پیغام پوسٹ کیا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ اس سال کے آخر تک، جہادیوں کی جانب سے مالی، صومالیہ یا دونوں میں ایک اسلامی ریاست یا امارت قائم کر لی جائے گی‘۔
القاعدہ کی شاخوں کا ارتقا
یہ پیش رفت علیحدہ واقعات نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع تر انتہا پسندانہ رجحان کا حصہ ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے نے ایک اہم محرک کا کردار ادا کیا ہے جو نظریاتی طور پر انتہا پسند گروہوں اور علاقائی ادارے جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور القاعدہ جیسے عالمی نیٹ ورکس کی علاقائی کنٹرول کے حصول کے لیے عملی طور پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
اب بنیادی طور پر القاعدہ اپنی شاخوں کے ذریعے کام کررہی ہے جبکہ اس کی مرکزی قیادت عمومی ہدایات جاری کرنے کے کردار تک محدود ہے۔ اپنے ایک اعلیٰ رہنما ایمن الظواہری کے قتل کے بعد سے تنظیم نے اپنے جانشین کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے۔
پہلی شاخ 2004ء میں القاعدہ اِن عراق (اے کیو آئی) قائم کی گئی جس کے بعد 2007ء-2006ء میں شمالی افریقہ میں القاعدہ اِن دی اسلامک مغرب (اے کیو آئی ایم) اور 2009ء میں عرب جزیرہ نما میں القاعدہ ان دی عربین پینسلوینیا (اے کیو اے پی) قائم کی گئی۔
الشباب جو 2012ء میں اُبھری، القاعدہ کی سب سے مال دار شاخ کے طور پر جانی جاتی ہے اور جس کی متوقع سالانہ آمدنی 10 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس کے بعد القاعدہ برصغیر (آئی کیو آئی ایس) ستمبر 2014ء میں قائم کی گئی اور جے این آئی ایم جس میں اے کیو آئی ایم اور مالی کی 4 مسلح جماعتیں شامل ہیں، 2017ء میں قائم ہوئی۔ اس کے علاوہ حرّاس الدین (ایچ اے ڈی) 2018ء کے آغاز میں شام میں سامنے آئی۔
مذکورہ شاخوں میں سے کئی یا تو بتدریج مکمل طور پر ختم یا تو دیگر کے ساتھ ضم ہو چکی ہیں یا تحلیل ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر اے کیو آئی ایم، جے این آئی ایم میں ضم ہو گئی، ایچ اے ڈی کو القاعدہ نے تحلیل قرار دیا جبکہ اے کیو آئی نے اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) میں ارتقا کیا۔
القاعدہ اور داعش کے درمیان اختلاف فروری 2014ء میں باضابطہ طور پر سامنے آئے کہ جب القاعدہ نے عوامی طور پر داعش کے ساتھ کسی بھی تعلق کی تردید کی۔ یہ دونوں گروہوں کے درمیان کئی ماہ کے تناؤ کے بعد ہوا جو ابوبکر البغدادی کی القاعدہ کی مرکزی قیادت جس کی سربراہی ایمن الظواہری کر رہے تھے، کی ہدایات کی پیروی کرنے سے انکار کی وجہ سے پیدا ہوا اور یہ اختلاف نظریاتی، عملی اور تنظیمی امور پر تھا۔
ہمارے خطے میں سب سے دلچسپ معاملہ القاعدہ کی شاخ اے کیو آئی ایس کا ہے جو ایک وقت میں پاکستان بھر میں اہم سیکیورٹی تنصیبات پر ہونے والے تقریباً تمام بڑے حملوں میں ملوث تھی اور یہ کام وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر کرتی تھی۔ اے کیو آئی ایس نے نظریاتی، عملی اور پروپیگنڈا اقدامات میں ٹی ٹی پی کی معاونت میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اب یہ بنیادی طور پر صرف پروپیگنڈا مواد پھیلانے تک محدود ہوچکی ہے جو عملی طور پر غیر فعال ہے۔
دوحہ امن معاہدے کے اثرات
ماہرین کا کہنا ہے کہ اے کیو سی اور اے کیو آئی ایس، 2020ء میں امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ امن معاہدے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کیونکہ اس معاہدے کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ القاعدہ کو افغان زمین کا استعمال کرتے ہوئے ’امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے‘ سے روکا جائے۔
ان دو طرفہ انتظامات کے نتیجے میں اے کیو سی اپنے رہنما ایمن الظواہری کی جولائی 2022ء میں کابل میں ہلاکت کو تسلیم کرنے سے بھی قاصر ہے اور نہ ہی باقاعدہ طور پر اپنے جانشین کا اعلان کر سکتی ہے جبکہ اے کیو آئی ایس کی کارروائیاں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں۔
دوحہ معاہدے نے القاعدہ کے لیے ایک متضاد صورت حال پیدا کی۔ یہ بات میرے ساتھی اور دی خراسان ڈائری (جو ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے جو انتہا پسند گروہوں اور تنازعات پر مرکوز ہے) کے تحقیقی سربراہ ریکارڈو ویلے نے بھی بتائی۔ وہ کہتے ہیں، ’اس معاہدے نے طالبان کو افغانستان میں مضبوط بنانے کے بنیادی مقصد کو حاصل کر لیا لیکن اس کے ساتھ ہی اے کیو سی اور اے کیو آئی ایس کو اپنی موجودگی کم کرنا پڑی تاکہ وہ امریکیوں کو اشتعال دلانے سے بچ سکیں۔
’اس کے نتیجے میں اے کیو آئی ایس نے اپنی توجہ پاکستان کی جانب منتقل کردی جہاں اس نے ریاست کے خلاف مہم میں پاکستانی طالبان کی حمایت کی اور اس نے ایسا اکثر نئے اتحادوں کے ذریعے کیا‘۔
القاعدہ، ایک مضبوط خطرہ
القاعدہ نے اپنی حکمتِ عملی اور تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کی ہے مگر اس کا بنیادی نظریہ برقرار ہے۔ یہ تنظیم بظاہر بڑے حملے کرنے سے گریز کر رہی ہے خاص طور پر مغربی ممالک میں تاکہ ردعمل سے بچا جا سکے جبکہ یہ مشرقی و مغربی افریقہ میں اپنے علاقائی پھیلاؤ کو بلا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ محتاط، صبر آزما انداز القاعدہ کو 2017ء-2014ء میں اسلامک اسٹیٹ کی حکمت عملی سے الگ کر دیتا ہے۔ اس وقت اسلامک اسٹیٹ نے زمین پر قبضہ کرنے اور ایک ہی وقت میں بڑے بین الاقوامی حملے کرنے کی کوشش کی۔ یہ نقطہ نظر ایک مضبوط فوجی کارروائی کا باعث بنا اور آخرکار انہیں اپنے بیشتر علاقوں سے محروم ہونا پڑا۔
رپورٹس کے مطابق جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس، افغان طالبان کی انٹیلی جنس سروس، افغانستان میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں بشمول القاعدہ کے انتظام کے لیے ایک مخصوص شعبہ رکھتی ہے۔ ان تنظیموں کو مبینہ طور پر سیکیورٹی، رہائش، ماہانہ وظیفہ اور حتیٰ کہ بعض صورتوں میں قومی شہریت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ تاجمیر جواد جو جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کے نائب ڈائریکٹر ہیں، مبینہ طور پر افغانستان میں ان غیر ملکی گروہوں بالخصوص القاعدہ کی نگرانی کے ذمہ دار ہیں۔
اگر کوئی بنیادی تحقیق کرے تو ایک اہم عنصر سامنے آئے گا جو ان تمام القاعدہ کی شاخوں کے متعلقہ ممالک میں اُبھرنے اور پروان چڑھنے کی بنیادی وجہ بیان کرتا ہے۔ کمزور ریاستیں جو غیر ملکی مداخلت، ناکافی حکمرانی، سیاسی اخراج، جاری تنازعات اور اقتصادی عدم مساوات جیسے مسائل سے جدوجہد کر رہی ہیں، وہ ملیشیائی تنظیموں کو پنپنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں۔
ایک مضبوط نظریاتی فریم ورک کے ساتھ یہ گروہ عوام کے سامنے خود کو موجودہ حکمران طبقے کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی وہ حکومتوں کے متبادل کے طور پر جنہوں نے برسوں عوام کی شکایات کو مناسب طریقے سے حل نہیں کیا۔
اگرچہ القاعدہ کی مرکزی قیادت کمزور ہو سکتی ہے لیکن اس کا اثر انتہا پسند منظرنامے میں بڑھ رہا ہے کیونکہ اس کی شاخوں کی علاقائی طاقت میں مختلف خطوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ شاخیں اے کیو سی کے ساتھ مضبوط نظریاتی ہم آہنگی رکھتی ہیں لیکن یہ کسی حد تک خودمختار ہیں، القاعدہ کی مرکزی قیادت کو فنڈنگ، بھرتی اور عملی مراکز کے لیے نئے مواقع فراہم کریں گی اور اس طرح اسے عالمی سطح پر موجودگی برقرار رکھنے کی اجازت ملے گی۔
حالیہ برسوں میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ افغانستان میں طالبان کو کسی حد تک بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل ہوئی ہے اور شام میں احمد الشارع کی زیرِقیادت حکومت (الشارع جو کبھی اے کیو آئی کا حصہ تھے اور القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ کی قیادت کرتے تھے) کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور ان کا دوسرے ممالک کی جانب سے پُرتپاک استقبال کیا گیا ہے۔ اس سے القاعدہ کو گمان ہوسکتا ہے کہ اگر وہ کسی ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں تو وہ بین الاقوامی برادری سے بھی اسی طرح کی پہچان اور قبولیت حاصل کر سکتے ہیں جو شام کے نئے صدر اور افغان طالبان کو ملی ہے۔
اس صورت حال میں القاعدہ ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرسکتی ہے جہاں وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی چالوں کے ساتھ ساتھ جنگ بھی کرسکتی ہے جبکہ وہ 9/11 کے بعد کی طرح براہ راست عسکریت پسندانہ حملوں سے گریز کرسکتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی