کیا پاکستان کے مسائل کے لیے کسی جادوئی حل کا تصور حقیقت ہے یا سیراب؟
کیا آپ کو 2010ء کی دہائی کے اوائل میں پھیلا مشہور ’واٹر کار‘ کا جنون یاد ہے؟ ایک صاحب کئی سینئر سیاست دانوں اور ٹی وی اینکرز کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ انہوں نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس میں گاڑی پانی سے چلتی ہے؟
یاد ہے وہ ہیجان کس قدر پھیل گیا تھا اور کیسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی نے خود ٹی وی پر آ کر اعلان کیا تھا کہ یہ ایجاد انقلاب ہے جو ہمارے تمام مسائل کو حل کرسکتی ہے؟
یاد ہے وہ ‘سوئز بینک اکاؤنٹس میں 200 ارب ڈالر’ والا اضطراب جو 2010ء کی دہائی کے وسط میں ملک میں پھیلا تھا؟ جب کچھ سینئر عوامی شخصیات جن میں اسد عمر بھی شامل تھے جو چند سال بعد پاکستان کے وزیرِ خزانہ بننے والے تھے، دھرنے کے اسٹیج سے یہ دعویٰ بڑے زور و شور سے کیا کرتے تھے۔
جب میں نے ایک مضمون لکھ کر اس مفروضے کی تردید کی تو مجھ پر ارب پتیوں کا ساتھ دینے کا الزام لگا دیا گیا۔ برسوں بعد جب وہ وزیرِ خزانہ بنے تو وہ انہی اینکرز میں سے ایک کے ٹی وی شو پر آئے جنہوں نے مجھ پر ’اشرافیہ کا ساتھ دینے‘ کا الزام لگایا تھا اور وہاں انہوں نے کہا کہ 200 ارب ڈالر والی بات ’بےبنیاد‘ تھی۔
پھر وہ آف شور تیل کی کہانی تھی جسے اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اس وقت بیان کردیا تھا جب وہ ایک آئل کمپنی کی ٹیم سے ملاقات کے چند ہی منٹ بعد میڈیا کے سامنے آئے حالانکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ ابھی کوئی حتمی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔
2014ء میں نواز شریف بہاولپور پہنچے اور اعلان کیا کہ وہاں سونے کے ایسے ذخائر ملے ہیں جو ہمارے تمام ملکی مسائل کا حل نکالنے کے لیے کافی ہیں۔
اسی طرح وہ 10 ارب ڈالر سالانہ کی رقم بھی تھی جو مبینہ طور پر ہر سال غیرقانونی ذرائع کے ذریعے پاکستان سے باہر منتقل ہو رہی تھی۔ یہ 10 ارب ڈالر کے اعداد و شمار جسے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ سے منسوب کیا گیا تھا جوکہ غلط تھا (اس میں دراصل ایسا کوئی تخمینہ موجود ہی نہیں تھا)۔ عمران خان نے اسی دعوے کی بنیاد پر کہا تھا کہ پاکستان کی معیشت صرف بیرونِ ملک رقم منتقلی کو روک کر ہی ٹھیک کی جا سکتی ہے کیونکہ ان کے بقول یہ رقم جرائم اور کرپشن کے ذریعے کمائی گئی ہے۔
درحقیقت ہر چند سال بعد یہی کہانی دوبارہ دہرائی جاتی ہے۔ کوئی نہ کوئی افواہ اڑائی جاتی ہے، ساتھ یہ دعوے بھی کیے جاتے ہیں کہ اب فلاں دریافت یا پیشرفت ہمارے تمام مسائل کا حل بن ثابت ہوگی اور ملک کو مزید اپنے قرض دہندگان یا دوطرفہ شراکت داروں کے پاس جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
اگرچہ فی الحال تو پورے ملک میں مکمل اضطراب کی کیفیت نہیں لیکن اسی طرح کی کم شدت کی ایک کیفیت پاکستان میں معدنیات اور شیل گیس کے حوالے سے بھی پائی جارہی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے پانیوں میں گیس کی تلاش کے بارے میں بھی حد سے زیادہ امیدوں اور غیرحقیقی توقعات سامنے آنے لگی ہیں۔
چند عرصے کے وقفوں کے بعد عوام میں پیدا کیے جانے والے اس اضطراب کے ذریعے کوئی نہ کوئی اہم بات ہم سے مخاطب ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی امید ہے جو کہیں دبی بیٹھی ہے کہ جیسے کوئی جادوئی حل ہے، کوئی دریافت یا پیشرفت ہے یا کوئی بیماری ہے جس کا علاج اگر کر دیا جائے تو مثبت تبدیلی پورے معاشی ڈھانچے میں پھیل جائے گی اور ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
جس عوامی اضطراب کا میں نے ذکر کیا ہے، وہ دراصل ان امیدوں کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں جو حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ یہ اس توقع کی سب سے شدید اور جنونی شکل ہے۔ لیکن جب لوگ توقعات کے اس جال میں نہیں پھنستے تب یہی امید زیادہ لطیف طریقوں سے ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ یہ کلیدی پالیسی سازوں کے سوچنے کے انداز کو بھی تشکیل دیتا ہے جس سے انہیں یہ باور کروانا مشکل ہوجاتا ہے کہ اصلاحات ضروری ہیں۔
گزرے برسوں میں، میں نے اہم لوگوں جیسے سول سروس کے اہلکاروں، سیاست دانوں، فوجی افسران کو ایک ایسا سوال کرتے سنا ہے جو اس صورت حال کو زیادہ بہتر انداز میں ظاہر کرتا ہے کہ جیسے اس ملک کے مسائل کے لیے کوئی ایک جادوئی حل موجود ہے۔
وہ پوچھتے ہیں کہ ’وہ کیا بنیادی مسئلہ ہے جو پاکستان کی معیشت کو پیچھے رکھنے کی وجہ ہے؟’ اس سوال کے کچھ اور بھی روپ ہیں جیسے ’اگر آپ ایک چیز بدل سکتے تو وہ کیا چیز ہوتی؟’ یا ’ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ کون سا ہے جسے حل کرنا ضروری ہے؟’ اور اس طرح کے دیگر سوالات ذہن میں آتے ہیں۔
ملکی مسائل حل کرنے کے لیے جادوئی حل کی تلاش ایک ایسے تصور سے جنم لیتی ہے جو معاشرے، معیشت اور سیاست کے بارے میں اس تصور سے بہت مختلف ہے جو ٹیکنوکریٹک سوچ رکھنے والے افراد جیسے کہ ماہرین معاشیات، پاکستان کے معاشی چیلنجز کا جائزہ لیتے وقت مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔
ماہرینِ معیشت پاکستان کے معاشی مسائل کو پورے ایک نظام کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں سب کچھ آپس میں منسلک ہوتا ہے۔ اس مجموعی تصور سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے قوانین اور مراعات کو کیسے ڈیزائن کیا جائے جو پالیسی سازوں کے طرزِعمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جیسے اشیا برآمد کرنے والی صنعتوں میں سرمایہ کاری کو بڑھانا وغیرہ۔
لیکن جادوئی حل میں بھی چیزیں اس طرح آسان نہیں۔ وہ پہلے نظام کے انفرادی حصوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور عام طور پر نجی کاروباروں یا ماہرینِ اقتصادیات پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ سرمایے کو وہ درندہ صفت شکاری سمجھتے ہیں (جو غلط بھی نہیں ہے) جبکہ معیشت دانوں کو وہ ‘ہٹ مین’ یا غیر ملکی مفادات کے ایجنٹ کے طور پر دیکھتے ہیں جو پاکستان کو کنٹرول کرنے اور اس کے لیبر اور وسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ دونوں گروہ شاید ہی کبھی ایک دوسرے سے بات کرتے ہوں اور جب وہ کرتے ہیں تو اکثر ایک دوسرے کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے آپس میں ملنے یا مشترکہ مقصد تلاش کرنے کے مواقع نہیں ہیں۔ ہر گروہ دوسرے کی کمزوریوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
معاشی ماہرین معیشت کے بارے میں اپنے بڑے تصویری نظریے میں سخت ہو سکتے ہیں۔ دوسرا گروہ اکثر صرف اپنی طاقت کے تحفظ پر توجہ مرکوز کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ یہ عوام کی خدمت کے مترادف ہے۔ نتیجتاً ان کی گفتگو، عقائد اور خود غرضی کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوجاتی ہے۔
یہ پاکستان میں اصلاحات کے حوالے سے گفتگو کی رفتار سست ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔ اصلاحات کی سوچ کے سب سے بڑے محرک وہ لوگ ہیں جو قرض دینے والے اداروں سے وابستہ ہیں جیسے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور عطیہ دہندگان وغیرہ۔
دوسری جانب ان اصلاحات پر عمل درآمد کے ذمہ داران خاص طور پر سول سروس کے اہلکار ایسی تبدیلیوں سے اپنے دائرہ اختیار کو خطرے میں سمجھتے ہیں جو یہ ادارے تجویز کرتے ہیں۔ وہ فنڈنگ تو حاصل کر ہی لیتے ہیں لیکن اصلاحات میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ ان دونوں گروہوں کے درمیان کوئی رابطہ قائم ہو جائے۔ آغاز اس بات پر توجہ مرکوز کرنے سے ہو سکتی ہے کہ فوری اور خصوصی اقدامات کیے جائیں جس سے توانائی ’چھوٹی کوشش سے زیادہ بڑے پیمانے پر نتائج حاصل کرنے‘ کی طرف مرکوز کی جا سکے۔
تاہم دباؤ سے بڑے اصلاحاتی منصوبوں کا پاکستان میں اعلیٰ فیصلہ سازوں کی طرف سے خیرمقدم کیے جانے کا امکان موجود نہیں ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔











لائیو ٹی وی