• KHI: Partly Cloudy 27°C
  • LHR: Partly Cloudy 21.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 19.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 27°C
  • LHR: Partly Cloudy 21.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 19.8°C

پاکستان میں نئی فٹبال لیگ کی تیاری، کیا ہم بھارت کی غلطیاں دہرانے جارہے ہیں؟

شائع November 21, 2025
پی ایف ایف کی پاکستان پریمیئر لیگ کے دوران میچ کی ایک پرانی تصویر— پاکستان فٹبال فیڈریشن
پی ایف ایف کی پاکستان پریمیئر لیگ کے دوران میچ کی ایک پرانی تصویر— پاکستان فٹبال فیڈریشن

پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) حال ہی میں منتخب ہونے والے اپنے سربراہ محسن گیلانی کے ماتحت ایک نئی ڈومیسٹک لیگ شروع کرنے کے لیے شرکت کے خواہشمند پارٹنرز تلاش کر رہی ہے۔

اس حوالے سے جاری پبلک نوٹس میں پی ایف ایف نے ممکنہ شراکت داروں سے کہا ہے کہ وہ لیگ میں اپنی دلچسپی اور تفصیلی تجویز اگلے ماہ کے آغاز تک فیڈریشن کو جمع کروائیں۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ نیا مقابلہ پاکستان پریمیئر فٹبال لیگ کے پرانے ماڈل پر مبنی ہوگا جوکہ محکمہ جات اور چند کلبز کا مرکب تھا جبکہ 2019ء کے بعد سے یہ ایونٹ منعقد ہی نہیں ہوا یا پھر یہ فرنچائز پر مبنی ٹورنامنٹ ہوگا۔

پاکستان میں متعدد فرنچائز لیگ کے تاجر فوراً اس لیگ کا حصہ بننے کے لیے قدم بڑھانے کو تیار ہیں کیونکہ ان کے منصوبے برسوں سے زیرِ عمل ہیں۔ صرف ایک چیز کی کمی تھی اور وہ پی ایف ایف کی منظوری تھی۔

محکمہ جات جن میں سے کئی نے اپنی کھیلوں کی سرگرمیاں بدلتی ہوئی ملکی پالیسیز اور پی ایف ایف میں ایک دہائی کے مسائل کی وجہ سے روک دی ہیں اور کلبز کے لیے، تجویز تیار کرنا زیادہ مشکل ہوگا۔ تجویز میں ان ٹیمز پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہوگی جنہیں دوسرے درجے کی پاکستان فٹبال فیڈریشن لیگ کے آخری ایڈیشن سے ترقی دی گئی تھی جو 2020ء میں پی ایف ایف کے لیے فیفا کی مقرر کردہ نارملائزیشن کمیٹی کے تحت منعقد ہوئی تھی۔

پی ایف ایف کی لیگ شروع کرنے کی عجلت کو گزشتہ ہفتے ایشین فٹبال کنفیڈریشن (اے ایف سی) کے صدر شیخ سلمان بن ابراہیم الخلیفہ کے دورہ پاکستان نے مزید بڑھا دیا ہے۔ شیخ سلمان جو فیفا کے سینئر نائب صدر بھی ہیں، نے لیگ کے انعقاد کے لیے اے ایف سی کی حمایت کو ایک بار پھر واضح کیا۔

ایشین فٹبال کنفیڈریشن کے سربراہ نے اپنے دورے کے دوران ڈان کو دیے گئے انٹرویو میں کہا، ’ہم لیگ کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔ ضروری نہیں کہ ابتدا میں یہ پیشہ ورانہ لیگ ہو لیکن مستقبل میں یہ ایک پیشہ ورانہ لیگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اور اس کا انحصار مارکیٹ کی قدر اور اس کے برقرار رہنے پر ہوگا‘۔

انہوں نے کہا، ’حل یہ ہے کہ صحیح افراد کو لایا جائے جو رہنمائی فراہم کریں اور مشورہ دیں کہ آپ کے ملک میں کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہر ملک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اس لیے شاید وہ فارمولا جو جاپان کے لیے فائدہ مند ہے، پاکستان کے لیے کارگر نہ ہو۔ اگر ہم قدم بہ قدم آگے بڑھیں تو ہمیں فرق نظر آئے گا‘۔

2016ء میں پاکستان پریمیئر فٹبال لیگ کے ایک میچ کے دوران ایک عمومی منظر—تصویر: فائل فوٹو/ڈان
2016ء میں پاکستان پریمیئر فٹبال لیگ کے ایک میچ کے دوران ایک عمومی منظر—تصویر: فائل فوٹو/ڈان

پاکستان میں شور شرابہ اس بات پر ہے کہ فٹبال لیگ بھی کرکٹ کی بے حد مقبول پاکستان سپر لیگ کی طرز پر فرنچائز ماڈل پر مبنی ٹورنامنٹ ہوگا۔ سرحد پار بھارت میں انڈین سپر لیگ (آئی ایس ایل) کے نام پر طویل مدتی جنون برقرار رہا جو بظاہر ایک دہائی بعد اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ تاہم پاکستان میں اب بھی لوگ اسی ماڈل کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

تاہم شیخ سلمان نے کچھ مشورے بھی دیے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت سے سبق کیسے لیا جائے تو انہوں نے کہا، ’یہ ایک مکمل لیگ ہونی چاہیے جو پورے فٹبال سیزن چلے، ایسی نہیں جو صرف تین ماہ چلے۔ فٹبال کے پہلو اور تجارتی پہلو کے درمیان اچھا توازن ہونا ضروری ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں تعاون سے آگے بڑھیں اور ایک دوسرے پر حاوی نہ ہو‘۔

انڈین سپر لیگ کے مسائل

2014ء میں بھارت میں آئی ایس ایل کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، وہ بھی اس امید کے ساتھ کہ یہ بھارت میں فٹبال کو بلند مقام تک لے جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور اس کے بجائے یہ زوال کے دہانے پر پہنچ گئی کیونکہ آل انڈیا فٹبال فیڈریشن کو اپنے نئے تجارتی شراکت دار کے لیے ٹینڈر پر پچھلے ہفتے کی مقررہ تاریخ تک کوئی بولی موصول ہی نہیں ہوئی۔

آئی ایس ایل کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اس لیگ کی تشکیل نے گراؤنڈ لیول کے کھلاڑیوں کے لیے آگے بڑھنے کے راستے بند کر دیے ہیں جبکہ فرنچائز مالکان زیادہ تر شعلہ بیانی اور دکھاوے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

بھارتی قومی ٹیم کے سابق کوچ اسٹیفن کانسٹنٹائن جنہوں نے بعد میں پاکستان کو فیفا ورلڈ کپ کوالیفائر میں پہلی فتح دلائی، نے کہا کہ وہ ’ایسی آئی ایس ایل میچ نہیں دیکھیں گے جس میں ٹیم میں 7 غیر ملکی کھلاڑی شامل ہوں‘۔

بھارتی فٹبال لیگ میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی بڑی تعداد کی شرکت کی وجہ سے یہ لیگ کامیاب نہیں ہوپائی
بھارتی فٹبال لیگ میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی بڑی تعداد کی شرکت کی وجہ سے یہ لیگ کامیاب نہیں ہوپائی

اسٹیفن کانسٹنٹائن کی دلیل واضح تھی۔ بھارتی ٹیم کے کوچ کے طور پر وہ چاہتے تھے کہ زیادہ بھارتی کھلاڑی لیگ میں کھیلیں۔ دیگر بھارتی کوچز جیسے کہ شنامگم وینکٹیش جو اسٹیفن کانسٹنٹائن کے جانشین ایگور اسٹیمک کے اسسٹنٹ تھے، نے کہا کہ آئی ایس ایل مقامی کھلاڑیوں کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ زیادہ تر تفریح مقاصد کے لیے ہے۔

آئی ایس ایل کی مختصر مدت (جو کم ہوکر آخر میں 6 ماہ کے ایونٹ تک پہنچ گئی تھی) ہمیشہ زیرِ بحث رہی۔ بھارت کو اپنے موجودہ اندرونی نظام میں تبدیلی کرنا پڑی تاکہ اس کے لیے جگہ بنائی جا سکے اور اسے بلآخر اعلیٰ درجے کی لیگ کے طور پر تسلیم کیا جا سکے۔ اب اس کا وجود خود ہی خطرے میں پڑ چکا ہے۔

پاکستان کے کوچ کے طور پر اپنے دورِ ملازمت کے دوران، اسٹیفن کانسٹنٹائن نے مقامی کھلاڑیوں کو مناسب مقابلہ نہ ملنے پر اپنی مستقل بے چینی کا اظہار کیا۔ وہ اکثر کہتے تھے، ’کچھ بھی ہو، بس لیگ شروع کرو‘۔

یہ سوال باقی ہے کہ فرنچائز لیگ میں مقامی کھلاڑیوں کی نمائندگی کتنی ہوگی۔ فرنچائز مالکان چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سرمایہ کاری پر جلد منافع حاصل کریں اور زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے وہ سب سے زیادہ امکانات غیر ملکی کھلاڑیوں کی لیگ میں شرکت کو دیکھتے ہیں۔

یہ سب اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ ممکنہ فرنچائز مالکان کی خواہش کیا ہے اور کیا وہ فرنچائز لیگ کے ذریعے مقامی کھلاڑیوں کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کر سکتے ہیں تاکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے کئی ہزار کلبز کے لیے راہیں ہموار ہوں اور وہ اعلٰی معیار تک پہنچ سکیں؟

کرکٹ کے برعکس جہاں پی ایس ایل ایک اچھے فعال ڈومیسٹک سسٹم میں خاص اہمیت رکھتا ہے، پاکستان میں فٹبال کو فی الوقت اہرام کی طرح تعمیر کرتے ہوئے سب سے نچلے درجے سے شروع کرنا ہوگا۔

ازبک ماڈل

شیخ سلمان نے اپنے انٹرویو کے دوران صبر کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقل پیش رفت کی بھی بات کی اور ایسے ممالک کی ترقی کو اجاگر کیا جیسے ازبکستان اور اردن جنہوں نے اس سال اپنی تاریخ میں پہلی بار فیفا ورلڈ کپ فائنلز کے لیے کوالیفائی کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ’جب آپ ازبکستان جیسے ملک کو دیکھتے ہیں تو انہوں نے رواں سال انڈر 17 ایشین کپ اور 2023ء میں انڈر 20 ایشین کپ جیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پیش رفت مستقل سامنے آتی ہے جوکہ شاندار ہے۔ یہ ایشین فٹبال کے لیے اچھا ہے۔ تاجکستان نے گزشتہ ایشین کپ میں اچھا کھیل پیش کیا جو یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وسطی ایشیا میں فٹبال ترقی کر رہا ہے لیکن جنوبی ایشیا میں ایسا کچھ نہیں ہوا‘۔

ازبکستان اور اردن دونوں میں ایک بات مشترک ہے۔ یہاں دکھاوے کے لیے کوئی لیگ نہیں بلکہ ایک مستحکم ڈومیسٹک لیگ ہے۔ ازبکستان نے 2009ء میں اپنے کلب بُنیادکور کے برے تجربے کو پیچھے چھوڑ دیا کہ جب وہ برازیل کے عظیم فٹبالر ریوالڈو کو لا کر خود کو ’سپر کلب‘ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ قومی ٹیم کی کامیابیوں کا سہرا، عمر کے اعتبار سے مختلف سطحوں پر کھیلی جانے والی لیگز میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو جاتا ہے جس میں ایک کلب انتہائی نمایاں ہے جس کا نام اولمپک تاشقند ہے۔ یہ کلب ازبک اولمپک ایسوسی ایشن کے زیرِملکیت ہے اور مکمل طور پر نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور اعلیٰ درجے کی لیگ میں کھیلتا ہے۔ یہ ایک طرح سے کھلاڑیوں کی نرسری کا کردار ادا کرتا ہے جبکہ ٹاپ انڈر 23 ٹیلنٹس کی مقابلے میں شرکت کو یقینی بناتا ہے جو بڑے کلبز کے لیے بینچ پر بیٹھنے پر مجبور ہوتے۔

لیگز سے حاصل اسباق

دہائی کے بحران کے بعد نیا پی ایف ایف ایک شفاف شروعات کے لیے تیار ہے لیکن اس کا کام صرف لیگ کو بحال کرنا نہیں بلکہ ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کے مقابلے کو بھی زندہ رکھنا ہے۔ نیشنل چیلنج کپ آخری بار 2024ء میں نارملائزیشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام منعقد ہوا تھا جس میں محکمہ جات اور کلبز نے شرکت کی تھی۔

تاہم فرنچائز لیگ ہی ایجنڈے پر سب سے زیادہ زیرِ بحث رہا ہے کیونکہ ڈان کی تحقیق میں پچھلے سال یہ سامنے آیا تھا کہ عالمی فٹبال ادارے فیفا کے اہلکار بھی اس منصوبے میں شامل تھے جبکہ اہلکار کی جانب سے مقرر کردہ نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین کی مدتِ ملازمت کے دوران ہی اسے شروع کرنا تھا۔

حکومت کے اہلکار بھی فرنچائز لیگ کے منصوبے سے متاثر دکھائی دیتے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ جلد ہی شروع ہو جائے گی۔ بس یہ فیصلہ باقی ہے کہ پی ایف ایف کس شراکت دار کو منتخب کرے گا۔

پاکستان کو یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کہ اسے واقعی کیا چاہیے اور اسے کیا نتائج ملیں گے۔ ہمیں دیگر کے تجربات سے حاصل ہونے والے اسباق کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عمید وسیم

عمید وسیم ڈان اخبار میں اسپورٹس کے شعبے کے نگران ہیں، فٹبال سے شغف رکھتے ہیں اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے فٹبال کور کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025