ججز ٹرانسفر کیس آئینی عدالت میں فکس کرنے کا اقدام چیلنج
ججز ٹرانسفر کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی ججز ٹرانسفر کیس میں انٹرا کورٹ اپیل وفاقی آئینی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی، درخواست گزار ججز نے اقدام چیلنج کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے وفاقی آئینی عدالت میں ایک متفرق درخواست دائر کی، جس میں انہوں نے اپنی انٹرا کورٹ اپیل کو سپریم کورٹ سے آئینی عدالت منتقل کیے جانے کو چیلنج کیا ہے۔
یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ثمن رفت امتیاز اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے دائر کی گئی۔
یہ کیس دیگر ہائی کورٹس کے 3 ججوں کے وفاقی دارالحکومت میں تبادلے سے متعلق ہے۔
جون میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے قرار دیا تھا کہ ان کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان 5 ججوں نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔
تاہم اب یہ انٹرا کورٹ اپیل وفاقی آئینی عدالت میں مقرر کی گئی ہے، جو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کیا گیا تھا، اور 24 نومبر کو اس کی سماعت ہونا ہے۔
متفرق درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے وفاقی آئینی عدالت سے اپیل واپس سپریم کورٹ بھیجنے کی استدعا کی اور ساتھ مؤقف اپنایا کہ یہ معاملہ آئینی طور پر سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ اپیل کو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی عدالت منتقل کیا گیا، تاہم درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ خود یہ ترمیم آئین سے متصادم ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ آئین نے واضح طور پر ریاست کے 3 بنیادی ستون، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کا تعین کیا ہے اور ہر ایک کے اختیارات و حدود مقرر کیے ہیں۔
ججوں کا مؤقف تھا کہ اگرچہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے، لیکن اس اختیار کو عدلیہ کے خاتمے، اس کی ازسرنو تشکیل، یا اس کی بنیادی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عدلیہ آئینی ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہے۔
درخواست گزاروں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے کئی فیصلے اختیارات کی علیحدگی اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی توثیق کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس نوعیت کے معاملات میں دائرہ اختیار سپریم کورٹ ہی کے پاس رہتا ہے، جب تک کہ کوئی ترمیم واضح طور پر اس کی نفی نہ کرے اور وہ بھی اس صورت میں کہ عدلیہ کی آئینی حیثیت متاثر نہ ہو۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 27ویں ترمیم کی بنیاد پر اپیل کو وفاقی آئینی عدالت منتقل کرنا قانونی طور پر درست نہیں تھا، کیونکہ یہ ترمیم خود آئین کی بنیادی ساخت سے متصادم ہونے کے باعث چیلنج کے دائرے میں ہے۔
متفرق درخواست دائر کیے جانے کے بعد اب یہ آئینی عدالت طے کرے گا کہ آیا وہ اپیل کی سماعت آگے بڑھا سکتا ہے یا معاملہ فیصلہ کے لیے سپریم کورٹ کو واپس بھیجنا ہوگا۔
اسی ہفتے کے اوائل میں انہیں پانچ میں سے 4 ججوں سوائے جسٹس جہانگیری کو 27ویں ترمیم کو چیلنج کرنے کی کوشش پر سپریم کورٹ نے روک دیا تھا اور انہیں وفاقی آئینی عدالت جانے کی ہدایت کی تھی۔
ججوں نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ایک درخواست کا مسودہ تیار کیا تھا اور اسے سپریم کورٹ کی رجسٹری برانچ کو بھیجا تھا۔
ڈرافٹ پٹیشن کے مطابق ججوں نے آرٹیکل 200 میں کی گئی ترمیم کو بھی چیلنج کیا تھا، جس کے تحت ہائی کورٹ کے ججوں کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ ممکن ہو گیا ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ایسی تبدیلیاں ججوں کو دباؤ، انتقامی کارروائی کے خوف اور عدالتوں کی تشکیل میں ممکنہ مداخلت کے خطرات سے دوچار کرتی ہیں۔












لائیو ٹی وی