برازیل: اقوام متحدہ کے کاپ 30 ماحولیاتی سربراہی اجلاس میں مصالحاتی معاہدہ طے
اقوامِ متحدہ کے کاپ 30 ماحولیاتی سربراہی اجلاس میں ممالک نے ہفتے کے روز ایک معاہدہ تو طے کر لیا، تاہم اس میں یورپی یونین کے مطالبے کے مطابق فوسل فیولز کے مرحلہ وار خاتمے کا کوئی روڈمیپ شامل نہیں، اور اس کی جگہ غریب ممالک کے لیے مالی تعاون بڑھانے پر سمجھوتہ اختیار کیا گیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق برازیل کے شہر بیلم میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مشکل مذاکرات کے بعد تقریباً 200 ملکوں نے اس معاہدے کی منظوری دی، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اجلاس کے بائیکاٹ کے باعث امریکا کی نمایاں غیر موجودگی دیکھنے میں آئی۔
جب ’کاپ 30‘ کے صدر اور برازیلی سفارتکار اینڈرے کورِیا دو لاگو نے ہتھوڑا بجا کر معاہدے کی منظوری کا اعلان کیا تو ہال میں تالیاں گونج اٹھیں، انہوں نے اعتراف کیا کہ مذاکرات آسان نہیں تھے۔
کوریا دو لاگو نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ میں سے کچھ ممالک بعض امور پر زیادہ بڑے اہداف کے خواہاں تھے۔
یورپی یونین اور دیگر ممالک ایک ایسے معاہدے پر زور دے رہے تھے، جس میں فوسل فیولز کے خاتمے کے لیے واضح ’روڈمیپ‘ شامل ہو، لیکن یہ الفاظ حتمی متن میں موجود نہیں۔
اس کے بجائے، معاہدے میں ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی ماحولیاتی کارروائی کو رضاکارانہ طور پر تیز کریں، اور دبئی میں ہونے والی ’کاپ 28‘ میں طے ہونے والے اتفاقِ رائے کو یاد رکھا گیا ہے، 2023 کے اس معاہدے نے دنیا کو فوسل فیولز سے دور ہونے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
یورپی یونین اور عرب ممالک کے گروپ کے درمیان فوسل فیولز پر اختلافات کے باعث مذاکرات جمعہ کی آخری تاریخ سے آگے بڑھ گئے، اور آخرکار سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے پوری رات بات چیت جاری رہی۔
فرانس کی وزیر ماحولیاتی تبدیلی مونیک باربوٹ نے تیل سے مالا مال سعودی عرب اور روس، نیز کوئلے کے بڑے پیداواری ملک بھارت اور متعدد دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں”پر فوسل فیولز کے خاتمے سے متعلق زبان کو مسترد کرنے کا الزام لگایا۔
یورپی یونین نے اس سے قبل خبردار کیا تھا کہ اگر فوسل فیولز پر پیش رفت نہ ہوئی تو اجلاس بغیر معاہدے کے ختم ہو سکتا ہے، تاہم اُس نے ’نرم زبان‘ پر سمجھوتہ کرلیا۔
یورپی یونین کے موسمیاتی کمشنر ووپکے ہوکسترا نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم یہ نہیں چھپائیں گے کہ ہم زیادہ مضبوط اور زیادہ بلند اہداف چاہتے تھے۔
دوسری جانب، کئی ممالک نے سخت ردِعمل ظاہر کیا، ان میں یورپی ممالک، ابھرتی ہوئی معیشتیں اور چھوٹے جزیرے رکھنے والے ممالک شامل تھے۔
پاناما کے موسمیاتی مذاکرات کار خوان کارلوس مونتریے نے کہا کہ ایک ایسا ماحولیاتی فیصلہ جو فوسل فیولز کا ذکر بھی نہ کرے، یہ غیر جانبداری نہیں بلکہ ملی بھگت ہے ، اور یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نااہلی سے کہیں بڑھ کر ہے۔
اتفاقِ رائے کی عدم موجودگی کے باعث، کوریا دو لاگو نے ہفتے کی صبح کہا تھا کہ صدارت فوسل فیولز اور جنگلات کے تحفظ پر الگ ضمنی متن جاری کر رہی ہے، تاکہ ان معاملات کو مرکزی معاہدے سے باہر رکھا جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ ممالک کو برازیلی صدارت کے دوران اگلے کاپ تک اس موضوع پر بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔
اگرچہ اخراج سے متعلق تنازعات موجود رہے، لیکن معاہدے میں مالی امور شامل کیے گئے ہیں، جن کا ترقی پذیر ممالک طویل عرصے سے مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
سمجھوتے میں امیر ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ 2035 تک ترقی پذیر ممالک کی موافقت کے لیے مالی امداد کم از کم 3 گنا بڑھائیں، تاکہ وہ سیلاب، خشک سالی اور دیگر ماحولیاتی اثرات سے نمٹ سکیں۔
اجلاس کا کامیاب اختتام ایک ایسے سیاسی بحران کو ٹال گیا ہے، جو برازیل کے صدر کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا تھا، جنہوں نے اس سربراہی اجلاس کو (جسے وہ ’سچائی کا کاپ‘ کہتے تھے) اپنی سیاسی ساکھ کا اہم حصہ بنایا تھا، اس کے ساتھ ساتھ یہ ٹرمپ کے اجلاس میں عدم شرکت کے بعد عالمی تعاون کا ایک امتحان بھی تھا۔
جرمنی کے اسٹیٹ سیکریٹری برائے ماحولیات یوخن فلاس بارت نے کہا کہ ہمیں اس فیصلے کو عالمی سیاست کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے، اور آخر میں ہمارے پاس اس عمل کا کوئی متبادل نہیں۔
اگرچہ یورپی یونین نے خود کو مذاکرات کے دوران ’تنہا‘ محسوس کیا، لیکن دیگر بڑی طاقتوں نے اسے اپنی کامیابی قرار دیا، چین کے وفد کے سربراہ لی گاؤ نے کہا کہ یہ اجلاس ایک کامیابی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
اس کے علاوہ، سمجھوتے کے تحت ایک نیا عمل بھی شروع کیا گیا ہے جس کے ذریعے عالمی ادارے یہ جائزہ لیں گے کہ بین الاقوامی تجارت کو ماحولیاتی اہداف سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔
یورپی یونین نے پہلے متن میں تجارت سے متعلق زبان کو (چین اور دیگر ابھرتی معیشتوں کے مطالبات کی وجہ سے) مسترد کر دیا تھا، لیکن حتمی معاہدے میں تجارت کے معاملات پر ’مکالمے‘ کا مطالبہ شامل کیا گیا ہے۔












لائیو ٹی وی