دو عدالتیں ’مشترکہ خاندانی گھر‘ میں جگہ کیلئے مدمقابل، وکلا تنظیموں میں بھی تقسیم
وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے افتتاح کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کی عمارت میں گرمجوش اور خوشگوار استقبال کے بعد اب یہ مطالبات زور پکڑ رہے ہیں کہ نو تشکیل شدہ ایف سی سی کو اس کے اصل متعین کردہ مقام یعنی فیڈرل شریعت کورٹ (ایف ایس سی) کی عمارت میں منتقل کیا جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شاہراہ دستور کے اس مقام پر کس کا اختیار ہو گا، اس حوالے سے جاری کھینچا تانی اب ایک ایسے ’مشترکہ خاندانی گھر‘ سے مشابہ ہوتی جا رہی ہے، جو پرانے آبا و اجداد کے مکان میں سمٹا ہوا ہو، جہاں ہر فرد جگہ کی کمی اور متصادم ضروریات کا شکوہ کرتا ہو۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) نے مطالبہ کیا کہ ایف سی سی کو آئی ایچ سی کی عمارت میں اس کے عارضی مقام سے ہٹایا جائے اور واضح کیا کہ نئی عدالت کو بالآخر ایف ایس سی کی عمارت سے ہی کام کرنا چاہیے۔
بار قیادت نے یہ بھی خبردار کیا کہ اگر آئی ایچ سی کو کہیں اور منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا بھرپور قانونی اور جمہوری مزاحمت سے سامنا کیا جائے گا۔
ایف سی سی کے قیام نے وہ چیز واضح کر دی ہے، جسے بہت سے مبصرین پالیسی سازوں کی منصوبہ بندی کی ناکامی قرار دے رہے ہیں، ایف سی سی ابتدا میں 26ویں آئینی ترمیم کے پیکیج کا حصہ تھی لیکن منظوری سے قبل اسے نکال دیا گیا تھا، اب اسے 27ویں ترمیم کے ذریعے دوبارہ شامل کیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی مبینہ طور پر پارلیمنٹ میں ترمیم پیش کیے جانے سے چند روز قبل ہی ایف سی سی کے لیے ایف ایس سی کی عمارت کو حتمی شکل دے چکے تھے۔
تاہم ایف ایس سی کی عمارت کو ایف سی سی کا مستقل گھر بنانے کا فیصلہ یکطرفہ طور پر کیا گیا، اور اس حوالے سے شریعت کورٹ کے ججوں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔
منصوبے کے تحت ایف ایس سی کے 4 ججوں اور صرف 56 زیر التوا مقدمات کو آئی ایچ سی کی تیسری منزل پر منتقل کیا جانا تھا، جہاں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو فوری طور پر 4 نئی عدالتیں تیار کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
اسی دوران، سی ڈی اے کو ایف سی سی کے ججوں کے لیے ایف ایس سی کی عدالتوں کی تزئین و آرائش کی ذمہ داری بھی دی گئی، لیکن جب سی ڈی اے کی ٹیمیں شریعت کورٹ کی عمارت کا قبضہ لینے پہنچی تو انتظامیہ نے سخت مزاحمت کی اور انہیں اندر داخل ہونے تک نہیں دیا۔
ایف ایس سی کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمٰن اور دیگر ججوں نے بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی اور اس یکطرفہ اور فوری حکم پر اپنے تحفظات ظاہر کیے، جس کے تحت انہیں اپنی مخصوص تعمیر شدہ عمارت ایک ہفتے کے اندر خالی کرنے کا کہا گیا تھا۔
ایک سینئر وکیل نے اسے ایک تضاد سے بھرپور صورتحال قرار دیا اور کہا کہ عام طور پر کسی کرائے دار کو مکان خالی کرنے کے لیے کم از کم ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ہے، لیکن ایف ایس سی کے ججوں سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ صرف ایک ہفتے میں اپنی عدالت کو چھوڑ دیں، جو خصوصی طور پر اسی مقصد کے لیے حاصل کی گئی تھی۔
تنگ جگہ
27ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور صدارتی توثیق کے بعد ایف سی سی کے چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں منعقد ہوئی، جس میں اعلیٰ سول، عسکری اور عدالتی شخصیات شریک ہوئیں۔
لیکن چونکہ ایف ایس سی کی عمارت ابھی تک ایف سی سی کے حوالے نہیں کی گئی تھی، اس لیے دیگر ججوں کی حلف برداری آئی ایچ سی میں منعقد کرنا پڑی تھی۔
3 ججوں کی ابتدائی حلف برداری 14 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک کھلی جگہ پر ہوئی، جہاں آئی ایچ سی بی اے کے عہدیداران اور سینئر وکلا نے نئے ججوں کا گرمجوشی سے استقبال کیا تھا۔
اگلے روز جسٹس کے کے آغا نے ایک تنگ کانفرنس روم میں حلف اٹھایا، جہاں بمشکل 25 سے 30 افراد کی گنجائش تھی، 17 نومبر کو جسٹس روزی خان بڑیچ اور جسٹس سید ارشد حسین شاہ کی حلف برداری بھی اسی کم گنجائش والے کمرے میں ہوئی۔
آئی ایچ سی انتظامیہ نے 7 عدالتیں مختص کیں تاکہ ایف سی سی مستقل جگہ ملنے تک کام کر سکے، لیکن جیسے ہی ایف سی سی کے سینئر افسران (جن میں سے کئی سپریم کورٹ سے آئے تھے) اپنے عہدوں پر فائز ہوئے، جگہ کی کمی مزید ابھر کر سامنے آئی۔
عدالتوں کی مختص شدہ جگہ بھی بے چینی کا سبب بنی، ایف ایس سی کے چیف جسٹس کو کورٹ روم نمبر 2 دیا گیا، جو پہلے جسٹس محسن اختر کیانی اپنے عدالتی کام کے لیے استعمال کرتے تھے۔
ہائی کورٹ کے اندرونی حکام کو خدشہ ہے کہ چونکہ ایف سی سی سب سے اعلیٰ آئینی فورم ہے، اس کے چیف جسٹس اگر چاہیں تو آئی ایچ سی کی عمارت پر بھی اختیار جما سکتے ہیں۔
بار میں اختلاف
جمعہ کی پریس کانفرنس میں آئی ایچ سی بی اے کے صدر واجد علی گیلانی نے زور دیا کہ ایف سی سی کا آئی ایچ سی میں قیام مکمل طور پر عارضی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایف سی سی کو پہلے سپریم کورٹ کی عمارت میں منتقل کیا جائے اور مستقل طور پر ایف ایس سی میں، جہاں مقدمات کی تعداد کم ہے اور پہلے سے انفرااسٹرکچر موجود ہے، کسی بھی ادارے کو ہائی کورٹ کی جگہ پر مسلط ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ قانونی برادری سے مشاورت کے بغیر کوئی انتظامی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسی ہر کوشش کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔
واجد گیلانی نے یاد دلایا کہ اسلام آباد کا عدالتی ڈھانچہ 1960 میں میلوڈی مارکیٹ میں قائم ایک واحد عدالت سے ترقی کر کے آج 100 سے زائد ججوں پر مشتمل مکمل نظام بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوامی فنڈز سے تعمیر شدہ عمارتیں انتظامی سہولت کے بجائے آئینی اصولوں کے مطابق استعمال ہونی چاہئیں۔
سیکریٹری آئی ایچ سی بی اے منظور احمد ججّہ نے کہا کہ آئی ایچ سی کی مبینہ منتقلی کی افواہیں ایک نجی ٹی وی رپورٹ سے جنم لیتی ہیں، جس کی کوئی قانونی یا انتظامی حیثیت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے ہائی کورٹ کو دیوار چن کر گھیرنے کی کوشش کی تو سخت احتجاج ہو گا، یہ برادری عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
اس کے برعکس اسلام آباد بار ایسوسی ایشن (آئی بی اے) (ڈسٹرکٹ بار) نے ہائی کورٹ کو اس کے پرانے جی-10 والے مقام پر واپس منتقل کرنے کی تجویز کا خیرمقدم کیا ہے۔
جمعے کے روز کابینہ اجلاس کے بعد آئی بی اے کے صدر چوہدری نعیم علی گجر کا کہنا تھا کہ یہ تجویز وکلا اور سائلین کو درپیش مشکلات کم کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کو جی-10 واپس منتقل کرنا ایک عملی اور دیرینہ مطالبہ تھا، اس سے قانونی برادری کو سہولت ملے گی اور انصاف تک رسائی بہتر ہو گی۔












لائیو ٹی وی