مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب اراکین قومی اسمبلی نے حلف اٹھالیا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-96 کے سوا ضمنی انتخابات کے نتائج کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، مسلم لیگ (ن) کے چار نئے اراکین قومی اسمبلی نے حلف اٹھالیا۔
حکمران مسلم لیگ (ن) نے اتوار کو ہونے والے 6 قومی اسمبلی کے حلقوں کے ضمنی انتخابات میں ڈالے گئے کل ووٹوں میں سے تقریباً 64 فیصد ووٹ حاصل کیے اور تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کی، ان میں سے پانچ نشستیں پنجاب میں اور ایک خیبر پختونخوا میں تھیں۔ ان نشستوں میں سے ایک کے علاوہ باقی وہ تھیں جو اپوزیشن پی ٹی آئی کے ایم این ایز کی نااہلی کے باعث خالی ہوئی تھیں۔
مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی کی سات میں سے چھ نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کی اور 82.41 فیصد ووٹ لئے۔ ساتویں نشست پی پی-269 مظفرگڑھ پر اس نے اپنا امیدوار میدان میں نہیں اتارا تھا، جہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار عالم دار قریشی میدان میں تھے۔
ای سی پی نے جن مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو ایم این اے منتخب قرار دیا ان میں محمود قادر خان (این اے-185 ڈیرہ غازی خان-II)، محمد نعمان (این اے-129 لاہور-XIII)، محمد طفیل (این اے-143 ساہیوال-III), دانیال احمد (این اے-104 فیصل آباد-X) اور بابر نواز (این اے-18 ہری پور) شامل ہیں۔
بابر نواز کے علاوہ باقی چار ارکان نے بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے حلف لیا جب ایوان کا 22واں اجلاس شروع ہوا۔
اسی دوران، پیپلز پارٹی کے قریشی کو پی پی-269 (مظفرگڑھ-II) اور مسلم لیگ (ن) کے سلطان علی رانجھا کو پی پی-73 (سرگودھا-III)، علی حیدر نور خان نیازی کو پی پی-87 (میانوالی-III)، آزاد علی تبسم کو پی پی-98 (فیصل آباد-I)، طاہر پرویز کو پی پی-115 (فیصل آباد-XVIII)، احمد شہریار کو پی پی-116 (فیصل آباد-XIX) اور محمد حنیف کو پی پی-203 (ساہیوال-VI) کے لیے نوٹیفائی کیا گیا۔
دوسری جانب، این اے-96 کے حوالے سے ای سی پی کی ترجمان درّیہ عامر نے کہا: ’’این اے-96 فیصل آباد سے کامیاب امیدوار کا نوٹیفکیشن روک دیا گیا ہے۔ ضابطۂ اخلاق کے تحت طلال چوہدری اور بلال چوہدری کے خلاف کیس زیرِ سماعت ہے۔‘‘
ای سی پی نے پیر کے روز وزیر کی مبینہ خلاف ورزی کے باعث بلال کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ طلب کیے جانے کے باوجود وزیرِ مملکت پیش نہ ہوئے۔ سماعت کے دوران بینچ نے کہا کہ وزیرِ مملکت نے واضح طور پر ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔
یہ بات زور دے کر کہی گئی کہ ضابطے کے مطابق وزیر کسی الیکشن مہم میں حصہ لینے کے مجاز نہیں تھے اور ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ طلال چوہدری نے تو پیش ہونے کی زحمت بھی نہیں کی۔
جواب میں وزیر مملکت کے وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے انہیں پہلی سماعت میں حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے واضح کیا کہ بلال چوہدری کو نااہل نہیں کیا جارہا بلکہ صرف ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکا جا رہا ہے۔ سماعت 2 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔
ضمنی انتخاب کا تجزیہ
مسلم لیگ (ن) نے چھ قومی اسمبلی نشستوں پر ڈالے گئے کل 883,108 ووٹوں میں سے 564,400 ووٹ حاصل کیے، جو 63.91 فیصد بنتے ہیں۔ حیران کن طور پر مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختونخوا کے حلقہ این اے-18 (ہری پور) کی نشست بھی پی ٹی آئی سے چھین لی، حالانکہ عمومی تاثر یہی تھا کہ یہ نشست پی ٹی آئی برقرار رکھے گی۔
سیاسی ماہرین کا خیال تھا کہ کم از کم یہ نشست پی ٹی آئی برقرار رکھے گی کیونکہ یہ حلقہ ایک ایسے صوبے میں ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، اس لیے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر راشد احمد خان نے ڈان نیوز کو بتایا، “اب پیپلز پارٹی سالانہ وفاقی بجٹ کی منظوری کے لیے مسلم لیگ (ن) کو بلیک میل نہیں کر سکتی،” انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی چھ نشستیں حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کر لے گی۔
این اے-18 میں پی ٹی آئی کی شکست کی وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ووٹرز بددل تھے اور سمجھتے تھے کہ جب ان کے ووٹ 2024 کے عام انتخابات میں “عزت” نہیں پائی تو اس بار بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کی قیادت اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے میں ناکام رہی۔
پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد مگسی نے بھی ان کے مؤقف کی تائید کی اور کہا کہ پی ٹی آئی کی قیادت فکری طور پر واضح نہیں تھی اور انتخابی مہم مؤثر طریقے سے نہیں چلا سکی، جبکہ روایتی انتخابی نشان نہ ہونے نے بھی شکست میں کردار ادا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کی مایوسی کے باعث ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم رہا۔












لائیو ٹی وی