بلدیہ عظمیٰ کراچی کا شہر میں 5 نئے قبرستانوں کے قیام کا منصوبہ
کراچی میں قبرستانوں کی شدید کمی کے باعث اگر اقدامات نہ کیے گئے تو 2040 تک شہر میں مردے کو دفنانے کی جگہ ختم ہو سکتی ہے، اس بحران کے پیشِ نظر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے فیصلہ کیا ہے کہ شہر کے نواح میں 500،500 ایکڑ کے 4 بڑے قبرستان جبکہ شہر کے اندر 25 ایکڑ کا ایک نیا قبرستان بنایا جائے گا۔
سندھ حکومت نے اصولی طور پر اس تجویز کی منظوری دے دی ہے اور توقع ہے کہ جلد اسے حتمی شکل دے دی جائے گی۔
یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا جب بار بار متنبہ کیا گیا کہ شہر کے تقریباً تمام قبرستانوں میں تدفین کے لیے جگہ ختم ہو چکی ہے۔
حالات نہ صرف خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں بلکہ ایسے حقائق بھی سامنے آئے ہیں جو کراچی والوں کے لیے نیا چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق کراچی کے میئر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اس منصوبے کی حمایت کی، جس کے بعد صوبائی حکومت نے اس کی منظوری دی اور کے ایم سی کو مختلف مقامات پر زمین حاصل کرنے کی اجازت دی۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ ’حال ہی میں ہونے والی ملاقاتوں اور بات چیت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ شہر کے نواح میں تقریباً 500، 500 ایکڑ کے 4 بڑے مقامات کے ایم سی کے قبرستانوں کے لیے مختص کیے جائیں گے، شہر کے اندر 25 ایکڑ کا ایک مقام بھی تجویز کیا گیا ہے، جو شاہراہِ بھٹو کے قریب قائم کیا جائے گا اور سندھ حکومت کی منظوری کا منتظر ہے‘۔
کے ایم سی کے ایک اہلکار کے مطابق شہر میں تقریباً 220 قبرستان موجود ہیں، جن میں سے 192 رسمی طور پر الاٹ کیے گئے ہیں، ان میں سے 173 مسلمانوں کے لیے اور 19 غیر مسلموں کے لیے ہیں، جن میں 12 عیسائی قبرستان اور 5 ہندو قبرستان شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان الاٹ کیے گئے قبرستانوں میں سے 46 کے ایم سی کے زیر انتظام ہیں، 20 ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، مختلف کنٹونمنٹ ایریاز اور سرکاری اداروں کے زیر انتظام ہیں، جبکہ 112 قبرستان(99 مسلم اور 13 غیر مسلم) سماجی تنظیموں، کمیونٹی گروپس اور نجی اداروں کے زیر انتظام ہیں، اضافی 14 قبرستان مختلف اداروں یا افراد کے زیر انتظام ہیں‘۔
اہلکار نے بتایا کہ پرانی قبروں کو توڑ کر نئی قبروں کے لیے جگہ بنانے کی شکایات کے پیش نظر کے ایم سی نے شہر کے کئی بڑے قبرستانوں میں تدفین پر پابندی عائد کر دی ہے، جن میں سوسائٹی قبرستان نزد طارق روڈ، ماڈل کالونی قبرستان، پاپوش نگر قبرستان، کورنگی نمبر 6 قبرستان، یاسین آباد قبرستان اور عظیم پورہ قبرستان شامل ہیں، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ عملی طور پر ان پابندیوں پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
اہلکار نے مزید بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کم توجہ اور قبرستانوں کی خراب صورتحال کے باعث یہ مقامات منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ عناصر کے لیے محفوظ ٹھکانوں میں بدلتے جا رہے ہیں۔
ایک اور اہلکار نے کہا کہ شہر کے قبرستانوں پر ’مافیا‘ کے بڑھتے ہوئے قبضے نے نہ صرف کراچی والوں کے لیے مسئلہ پیدا کیا ہے بلکہ اس کے باعث تجاوزات اور غیر قانونی پلاٹنگ، جسے عام طور پر ’چائنا کٹنگ‘ کہا جاتا ہے، بھی بڑھ گئی ہے۔
اہلکار نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ شہر کے مشہور اور روایتی قبرستانوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے کے ایم سی کے اہلکار اور دیگر عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر کوئی خاندان کسی خاص قبرستان میں اپنے عزیز کو دفنانا چاہے تو قبر سے متعلقہ اخراجات ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک پہنچ سکتے ہیں، بیشتر لوگوں کو یہ معلوم بھی نہیں کہ کے ایم سی کے زیر انتظام قبرستانوں میں قبر اور تدفین کی فیس صرف 9 ہزار 300 روپے ہے، لیکن جگہ کے تیزی سے سکڑنے کی وجہ سے یہ مافیا کے لیے کاروبار بن چکا ہے، اگر کراچی کے میئر کی تیار کردہ اور تجویز کردہ منصوبہ حقیقت کے مطابق عمل میں آیا، تو یہ کراچی والوں کے لیے بہت بڑی راحت کا باعث ہوگا‘۔












لائیو ٹی وی