• KHI: Partly Cloudy 19°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.6°C
  • ISB: Cloudy 15.3°C
  • KHI: Partly Cloudy 19°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.6°C
  • ISB: Cloudy 15.3°C

بی وائی سی کی چیف آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ کراچی میں درج بغاوت کے مقدمے سے بری

شائع December 4, 2025
ماہ رنگ بلوچ نے وکیل جبران ناصر کے ذریعے فوجداری ضابطہ کار کی دفعہ 256-K کے تحت بریت کی درخواست دائر کی تھی۔—  فائل فوٹو: ایکس
ماہ رنگ بلوچ نے وکیل جبران ناصر کے ذریعے فوجداری ضابطہ کار کی دفعہ 256-K کے تحت بریت کی درخواست دائر کی تھی۔— فائل فوٹو: ایکس

انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت (اے ٹی سی) نے بدھ کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی گرفتار چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو بغاوت اور دیگر الزامات کے مقدمے سے بری کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ مقدمہ کراچی میں اُن پر سکیورٹی اداروں پر الزامات لگا کر عوام کو اکسانے کے الزام میں درج کیا گیا تھا۔

تاہم موجودہ مقدمے میں بریت کے باوجود، بی وائی سی کی رہنما (جو اس وقت کوئٹہ کی جیل میں قید ہیں) ان کے خلاف متعدد دیگر مقدمات زیرِ التوا ہونے کی وجہ سے بدستور حراست میں رہیں گی۔

اے ٹی سی نمبر 5 نے مشاہدہ کیا کہ مدعی نے ایف آئی آر تو درج کرائی، مگر اپنے مؤقف کے ثبوت کے لیے کوئی آزاد گواہ پیش نہیں کر سکا۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ استغاثہ کی جانب سے 5 گواہ پیش کیے گئے جن میں شکایت کنندہ کے علاوہ باقی تمام پولیس اہلکار تھے اور وہ مبینہ واقعے کے حقائق سے واقف نہیں تھے۔

بی وائی سی کی رہنما اور دیگر افراد کے خلاف 11 اکتوبر 2024 کو قائدآباد تھانے میں دہشت گردی اور بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے وکیل محمد جبران ناصر کے ذریعے فوجداری ضابطہ کار کی دفعہ 256-K کے تحت بریت کی درخواست دائر کی تھی۔

فریقین کے دلائل سننے اور ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد، جج نے درخواست منظور کرتے ہوئے ملزمہ کو بری کردیا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ استغاثہ کے گواہوں کے بیانات، جو دفعہ 161 کے تحت تحقیقاتی افسر نے قلم بند کیے، میں مبینہ واقعے کے حوالے سے ایک لفظ بھی موجود نہیں تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔

یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ تحقیقاتی افسر نے جائے وقوعہ کا دورہ کرتے وقت نہ کسی نجی یا آزاد گواہ کو طلب کیا اور نہ ہی اہلِ علاقہ سے واقعے کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کیں۔

عدالت نے چالان جمع کرانے میں تاخیر کی نشاندہی بھی کی۔

حکم کے مطابق مقدمہ اکتوبر 2024 میں درج ہوا جب کہ چالان اگست 2025 میں ، یعنی 10 ماہ کی تاخیر کے بعد، اور وہ بھی بغیر کسی وجہ بتائے جمع کرایا گیا۔

جہاں تک ملزمہ کے اسی نوعیت کے دوسرے مقدمات میں ملوث ہونے کا تعلق ہے، عدالت نے قرار دیا کہ یہ اصول مسلمہ ہے کہ محض کیسز کا زیرِ التوا ہونا کسی ملزم کو مجرم قرار دینے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔

دفاع کے وکیل نے یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے مدعی کی ساکھ بھی چیلنج کی کہ وہ خود مبینہ طور پر مجرمانہ مقدمات میں ملوث رہا ہے۔

استغاثہ کے مطابق، یہ مقدمہ لانڈھی کے ایک مقامی تاجر اسد شمس کی شکایت پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے نامعلوم ساتھیوں کے خلاف درج کیا گیا تھا، الزام لگایا گیا کہ وہ سوشل میڈیا پر غیر ملکی سرپرستوں کے ایما پر بی وائی سی رہنما کی ’ریاست مخالف مہم‘ دیکھ رہا تھا۔

مزید کہا گیا تھا کہ انتشار اور نفرت پھیلانے کے لیے انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ریاستی اداروں پر شہریوں کے قتل کے الزامات لگائے اور مبینہ طور پر دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کیا، جو ان کی ریلیوں میں مظاہرین کے درمیان چھپ کر حساس مقامات کی ریکی کرتے ہیں۔

ایف آئی آر تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 124-اے (بغاوت)، 148 (مہلک ہتھیار سے بلوہ)، 149 (غیر قانونی اجتماع)، 153-اے (گروہوں کے درمیان نفرت پھیلانا)، 500 (ہتکِ عزت کی سزا) اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت درج کی گئی تھی۔

عدالت کے حکم میں کہا گیا کہ زیرِ التوا مقدمات کی بہتات کے پیش نظر، کمزور، ناکافی اور ناقابلِ قبول شواہد پیش کرنے کی اجازت دینے کے بجائے، اب وقت آ گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ اپنے وسیع اختیارات استعمال کرے تاکہ عوامی وقت ضائع نہ ہو اور دیگر اہم مقدمات کی کارروائی مؤثر انداز میں آگے بڑھ سکے۔

فاضل جج نے فیصلے میں لکھا کہ ان حالات میں، میری رائے ہے کہ ملزمہ کے کسی جرم میں سزا پانے کا کوئی امکان موجود نہیں، لہٰذا یہ درخواست منظور کرتا ہوں اور ملزمہ محترمہ ماہ رنگ بلوچ دختر عبدالغفار کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265-K کے تحت بری کرتا ہوں۔

عدالت نے مزید لکھا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کوئٹہ جیل حکام کی جانب سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئیں، موجودہ مقدمے میں بریت کے باوجود وہ دیگر مقدمات زیرِ التوا ہونے کی وجہ سے حراست میں رہیں گی۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025