’عمران خان اور بشریٰ بی بی سیاست میں جادو و توہم پرستی کا استعمال کرنے والے واحد کردار نہیں‘
گزشتہ ماہ 14 نومبر کو دی اکانومسٹ کے ماتحت آنے والے ناشر 1843 نے بشریٰ بی بی کے متنازعہ روحانی اثر و رسوخ پر ایک مضمون شائع کیا جو جیل میں قید سابق پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کی اہلیہ ہیں۔
بشریٰ بی بی اس وقت خود بھی قید میں ہیں اور عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ عمران خان اب بھی ان کی ‘روحانی’ طاقتوں سے متاثر ہیں۔ ناشر 1843 نے اس جوڑے کے سابق قریبی ساتھیوں اور گھریلو عملے کے بیانات بھی شائع کیے جو اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بشریٰ بی بی ‘جادو ٹونے’ کے ذریعے عمران خان کی طاقت برقرار رکھنے اور ان کے مخالفین پر قابو پانے میں ملوث تھیں۔
لیکن اس مضمون کا متن پاکستانی میڈیا کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ پہلے ہی ان تفصیلات سے واقف تھے جن پر مضمون میں روشنی ڈالی گئی تھی۔ تاہم جب اس جوڑے کے بارے میں الزامات ایک انتہائی معزز بین الاقوامی میگزین میں سامنے آئے تو ردِعمل انتہائی شدید تھا۔
عمران خان کے حریفوں نے فوراً سوشل میڈیا پر اس اشاعت کا فائدہ اٹھایا جبکہ وہ صحافی جنہیں پہلے عمران خان کی پارٹی نے غیر مستند افواہوں کو نشر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اس مضمون کو اپنے پرانے شبہات کی توثیق کے طور پر دیکھنے لگے۔
عمران خان کے ناقدین نے بشریٰ بی بی پر الزام لگایا کہ انہوں نے سابق وزیراعظم کے پُر آشوب دورِ حکومت کے دوران براہِ راست سیاست میں مداخلت کی جوکہ ایک ایسا الزام ہے جو عمران خان کے عوامی دعوے کے بالکل برعکس تھا کہ وہ ’صرف نیک گھریلو خاتون‘ ہیں۔
پھر کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے عمران خان کا مذاق اُڑانے لگے کہ اوکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ حقیقت میں انتہائی توہم پرست اور غیر معقول شخص ہیں۔ آخرکار ایک تیسری جماعت نے 1843 کے مضمون پر تنقید کی جس کے لیے اس نے استدلال کیا کہ یہ مضمون ‘خواتین مخالف’ ہے کیونکہ اس نے عمران خان کی حکومت میں پیش آنے والی تمام ناکامیوں کا الزام براہِ راست بشریٰ بی بی پر ڈال دیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ صورت حال ان بے شمار مثالوں کی عکاسی کرتی ہے جہاں سیاستدانوں نے جادو اور مافوق الفطرت عقائد کو آمرانہ حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا۔ یہ حربہ اکثر عوام میں خوف پیدا کرنے اور مخالفین کو خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں یہ عقائد پہلے ہی عام ہوں۔ بنیادی طور پر یہ وسیع تر ‘خوف کی سیاست’ کی عملی شکل ہے جو سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے نفسیاتی کمزوریوں کو بروئے کار لاتی ہے۔
فرانسوا ‘پاپا ڈاک’ ڈووالئیر جو 1957ء سے 1971ء تک ہیٹی پر حکمرانی کرتے رہے، ایک نمایاں مثال ہیں کہ کس طرح ایک رہنما نے اپنے آپ کو جادو اور ووڈو کے ذریعے مطلق العنان حاکم کے طور پر پیش کیا۔ فرانسوا ڈووالئیر نے وحشیانہ آمریت اور ووڈو تصوف کے امتزاج سے اپنے لیے ایک طاقتور شخصیت کا مرکز قائم کیا۔
انہوں نے اپنے رویے کی تقلید ہیٹی کے ‘مردہ روحوں’ سے کی۔ انہوں نے عوام میں گہرائی تک موجود روحانی عقائد اور خوف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک جادوئی حکمران کی تصویر قائم کی۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کا دورِ حکومت روحانی دنیا سے منسلک ہے۔
وہ اپنی طاقت کو مضبوط کرنے میں کامیاب رہے بالخصوص دیہی علاقوں میں ان کا اثر و رسوخ تھا جہاں زیادہ تر لوگ ووڈو کے پیروکار تھے۔
ان کے ظالم نیم فوجی دستے جسے ‘ٹونٹونز میکوٹس’ کہا جاتا تھا، کا نام کریول لوک کہانیوں کے ایک کردار سے لیا گیا تھا جوکہ ایک ڈراؤنا کردار تھا جو نافرمان بچوں کو اغوا کیا کرتا ہے۔ اس نام کے ذریعے حکمت عملی کے تحت ثقافتی خوف اور توہمات کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر مؤثر طریقے سے استعمال کیا گیا۔

شمالی کوریا میں بھی کِم خاندان ایسی کہانیاں بنا کر اقتدار میں رہتا ہے جس سے لگتا ہے کہ ان کے پاس جادوئی طاقتیں ہیں اور ان کی وہاں تقریباً دیوتاؤں کی طرح تعظیم کی جاتی ہے۔ حکومت لوگوں کو بتاتی ہے کہ کِم خاندان کے لوگ حیرت انگیز چیزیں کر سکتے ہیں جیسے کہ وہ موسم کو کنٹرول کرنا جانتے ہیں۔
یہ کہانیاں کِم کو نہ صرف سیاسی رہنماؤں سے زیادہ کا درجہ دیتے ہیں بلکہ اس سے انہیں ملک پر مکمل کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔
سابق عراقی آمر صدام حسین خوف پیدا کرنے اور مخالفین کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنے کے لیے خفیہ اور پُراسرار افواہوں کا ہوشیاری سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ صدام حسین اور ان کے خاندان کے بارے میں یہ افواہیں عام تھیں کہ وہ اپنے دور حکومت کو محفوظ رکھنے اور دشمنوں کے اقدامات کی پیش گوئی کے لیے جادوگروں کو استعمال کرتے ہیں۔
عوام میں یہ کہانیاں گردش کرتی تھیں کہ صدام کے پاس ایک جادوی پتھر یا تعویذ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اسے ان کی جلد کے نیچے نصب کیا گیا ہے اور یہ انہیں کسی نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ یقین کہ آمر جادوئی طور پر محفوظ ہے، ایک طاقتور نفسیاتی حربے کے طور پر کام کرتا تھا جو کسی بھی داخلی تحریک کو حکمران کی طاقت کو چیلنج کرنے سے پہلے ہی دبا دیتا ہے۔
سری لنکا جیسی جمہوریت جہاں جدید سیاست نظر آتی ہے، وہاں بھی توہمات اور پرانی روایات اہمیت رکھتی ہیں۔ ماہر سیاسیات او این تھلپاویلا کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے بہت سے سیاستدان اب بھی توہمات پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی سیاسی زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے علمِ نجوم پر انحصار کرتے ہیں۔
سیاست دان اکثر ان عقائد کو تسلیم کرتے ہیں تاکہ عوام سے حمایت اور اثر و رسوخ حاصل کیا جا سکے کیونکہ جو خود عوام بھی انہیں عقائد کو مانتی ہے۔
یہ حکمرانوں کی جانب سے استعمال ہونے والی پرانی آمرانہ چال کی چند جدید مثالیں ہیں۔ وہ مافوق الفطرت طاقتوں کا دعویٰ کرتے ہیں خاص طور پر جب لوگوں کی اکثریت روایات یا توہمات پر یقین رکھتی ہو۔ ایسا کرنے سے ان کی سیاسی طاقت مقدس یا خوفناک معلوم ہونے لگتی ہے۔
تاہم مافوق الفطرت کا سیاسی استعمال دو دھاری تلوار کی مانند خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جہاں کچھ رہنما اسے خدائی طاقت کا تاثر دیتے ہیں، وہیں کچھ اپنے مخالفین کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیے ‘کالے جادو’ کے الزامات استعمال کرتے ہیں۔ یہ الزامات مخالف کی شہرت اور اعتماد کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
عمران خان نے اکثر بشریٰ بی بی کو ایک انتہائی مذہبی، صوفی خاتون کے طور پر پیش کیا ہے اور کہا کہ ان کے سیاسی حریف انہیں نقصان پہنچانے کے لیے انہیں ’جادوگرنی‘ کی طرح دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس میں کسی حد تک حقیقت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ الزامات صرف ان کے حریفوں کی طرف سے سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ عمران خان کی اپنی پارٹی کے کچھ لوگ جو ان پر ان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان تھے، یہ بھی دعویٰ کیا کرتے تھے کہ انہوں نے برے مقاصد کے لیے جادو کا استعمال کیا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بشریٰ بی بی کی مذہبی تصویر سیاسی فائدے کے لیے عمران خان کی مشہور توہمات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دانستہ اقدام تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جوڑا عوامی طور پر ایسے ‘روحانی’ اعمال میں حصہ لیتا رہا ہو جو دیہی عوام خاص طور پر پنجاب میں، عام طور پر ہوتے ہیں تاکہ ان طبقات سے حمایت حاصل کی جا سکے اور سیاسی اثر و رسوخ مضبوط کیا جا سکے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بشریٰ بی بی نے دانستہ طور پر اپنی بڑھتی ہوئی شہرت کو ایک طاقتور مافوق الفطرت قوتوں کی حامل شخصیت کے طور پر فروغ دیا ہو جن میں یہ افواہ بھی شامل ہو کہ ان کی خدمت میں جن موجود ہیں تاکہ اسے حکمت عملی کے طور پر استعمال کی جا سکے اور عمران خان کی پارٹی کے اندر اور باہر موجود دونوں مخالفین پر قابو پایا جا سکے۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی اکثر ایسا کرتے اور بولتے تھے جیسے وہ مافوق الفطرت طاقتوں سے رہنمائی حاصل کر رہے ہوں جسے وہ ’تصوف‘ کہتے تھے۔ اس نے پہلے کے تمام منظرناموں کو قابل اعتبار بنا دیا اور ان کے اثر و رسوخ کے بارے میں ایک مضبوط کہانی تخلیق کی ہے۔
لیکن اس سے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ’تصوف‘ واقعی اتنا طاقتور تھا تو اس نے عمران خان کو جیل سے باہر آنے یا وزیر اعظم کے طور پر اقتدار میں واپس آنے میں مدد کیوں نہیں دی؟
اگرچہ ان کے مخالفین نے جوڑے کے روحانی طریقوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے خود ایسے جواز پیدا کیے کہ یہ کہانیاں جڑ پکڑ سکیں اور مزید پھیل سکیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی